تہران: ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے ہفتہ کے روز ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہے، تاہم یہ مذاکرات صرف اور صرف برابری کی بنیاد پر ہی ممکن ہوں گے۔
صدارتی ویب سائٹ پر جاری بیان میں انہوں نے واضح کیا کہ اگر امریکہ ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت چاہتا ہے تو دھمکیاں دینا بند کرے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ “اگر آپ چاہتے ہیں کہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کیے جائیں تو پھر یہ دھمکانے کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟”
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ صرف ایران ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی توہین کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بین الاقوامی پالیسیوں، اقدامات اور بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے رویے سے سفارتی عمل میں رکاوٹ آتی ہے۔
یہ بیان امریکی صدر ٹرمپ کی حالیہ دھمکی کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتا تو پھر “بمباری” ہی واحد راستہ ہو گا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “میں یہ سمجھتا ہوں کہ براہ راست مذاکرات زیادہ موثر ہوتے ہیں، اور یہ بہتر ہے کہ بات چیت خود کی جائے، کسی تیسرے فریق کے ذریعے نہیں۔”
تاہم ایرانی صدر کے بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا ایران امریکہ سے براہ راست بات کرے گا یا ماضی کی طرح بالواسطہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا۔ ماضی میں ایرانی حکام متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر امریکی دباؤ کی پالیسیوں کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ ایران نے 2015 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ایک جوہری معاہدہ کیا تھا۔ تاہم 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔
Comments are closed.