ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ یہ مذاکرات برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، لیکن ہم کسی قیمت پر مذاکرات کو قبول نہیں کریں گے۔” یہ بات انہوں نے پیر کو تہران میں سیاسی جماعتوں اور عوامی بلاکس کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران کہی۔
امن پسندی کا اعادہ: جنگ یا ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت
صدر پزشکیان نے زور دیا کہ ایران جنگ، بدامنی یا ایٹمی ہتھیاروں کا حامی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، “ہم جنگ، افراتفری یا ایٹمی بم کے حامی نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات تعمیری ہوں اور امریکہ کو بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ واقعی مذاکرات کا خواہشمند ہے۔”
امریکی خاموشی پر ایران کا ردعمل
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ایران کی جانب سے امریکہ کو بالواسطہ مذاکرات کی جو پیشکش کی گئی تھی، اس کا تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔ یہ پیشکش سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک خط کے جواب میں ایران کے براہ راست مذاکرات سے انکار کے بعد کی گئی تھی۔
اسماعیل بقائی نے ایران کی تجویز کو “سخاوت مندانہ پیشکش” قرار دیا اور کہا کہ ایران نے ہمیشہ سفارتی حل کو ترجیح دی ہے، لیکن امریکہ کی جانب سے مسلسل خاموشی ایرانی عوام اور قیادت میں شکوک پیدا کر رہی ہے۔
عمان کی ثالثی: ایک ممکنہ سفارتی راستہ
ایرانی ترجمان نے یہ بھی اشارہ دیا کہ سلطنت عمان ممکنہ طور پر ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی میزبانی کے لیے سب سے مؤثر آپشن ہو سکتی ہے۔ عمان ماضی میں بھی ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے، خاص طور پر 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کی راہ ہموار کرنے میں۔
پس منظر: تعلقات میں تناؤ کی تاریخ
ایران اور امریکہ کے تعلقات کئی دہائیوں سے تناؤ کا شکار ہیں، خاص طور پر جب 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر JCPOA سے علیحدگی اختیار کی اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا مزید خراب ہوئی۔
جو بائیڈن انتظامیہ نے اگرچہ مذاکرات کی حمایت کا عندیہ دیا ہے، لیکن کوئی واضح اور قابلِ قبول قدم سامنے نہیں آیا، جس سے ایرانی قیادت میں بےاعتمادی پائی جاتی ہے۔
نتیجہ: ایران کا دروازہ کھلا ہے، امریکہ کو عملی قدم اٹھانا ہوگا
ایرانی قیادت کا تازہ ترین بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ تہران اب بھی سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے، لیکن صرف اسی صورت میں جب اسے باعزت طریقے سے سنا جائے۔ اب یہ امریکہ پر ہے کہ وہ اس پیشکش کو سنجیدگی سے لے اور بات چیت کے لیے عملی اقدامات کرے۔
Comments are closed.