ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں اس وقت مزید شدت آ گئی جب جمعے کی صبح اسرائیلی فضائیہ نے ایران کی مختلف ایٹمی تنصیبات اور عسکری مراکز پر حملے کیے۔
ان حملوں کے نتیجے میں متعدد ایرانی ایٹمی سائنسدان، پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی اور دیگر اہم شخصیات جان کی بازی ہار گئیں۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، نطنز کی مرکزی یورینیم افزودگی تنصیب کو بھی نشانہ بنایا گیا جہاں سے سیاہ دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے گئے۔ عینی شاہدین نے تہران اور نطنز سمیت کئی شہروں میں دھماکوں کی آوازیں سنی جانے کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس فضائی کارروائی کو “اسرائیل کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “اسرائیل نے ایران کی ایٹمی قابلیت کو محدود کرنے کے لیے ان سائنسدانوں کو نشانہ بنایا جو ایٹم بم بنانے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے، اور ساتھ ہی ایران کی میزائل فیکٹریوں کو بھی تباہ کیا گیا۔”
ایران کی جانب سے اس حملے کے ردعمل میں پاسداران انقلاب، فوج اور فضائی دفاعی نظام کو مکمل الرٹ کر دیا گیا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بارے میں “رائٹرز” کو اعلیٰ سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وہ محفوظ اور خیریت سے ہیں اور انہیں مسلسل تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھا جا رہا ہے۔
تاہم، سپریم لیڈر کے اہم مشیر علی شمخانی کے بارے میں ایرانی خبررساں ادارے “نورنیوز” نے اطلاع دی ہے کہ وہ اسرائیلی حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں اور ان کی حالت نازک ہے۔
ایرانی مسلح افواج کے ترجمان، ابوالفضل شکرچی نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ:
> “اسرائیل اور امریکہ کو اس حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔”
اسرائیل نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور ممکنہ ایرانی میزائل و ڈرون حملوں کے پیش نظر تمام سول ڈیفنس اداروں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین اس پیش رفت کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک ممکنہ وسیع جنگ کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں، جہاں امریکہ، ایران اور اسرائیل تینوں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شامل ہو سکتے ہیں۔
Comments are closed.