اسلام آباد کچہری کے خودکش حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی:عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کچہری کے باہر ہونے والے خودکش حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور اس کا مرکزی کردار کالعدم ٹی ٹی پی کا سربراہ نور ولی محسود تھا۔ حکومت نے کہا ہے کہ 48 گھنٹوں کے اندر اہم گرفتاریاں عمل میں آئیں اور تحقیقات میں بڑے شواہد سامنے آئے ہیں۔

حملے کے تانے بانے افغانستان سے

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطا تارڑ نے بتایا کہ 11 نومبر کو وفاقی دارالحکومت میں بڑا نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، تاہم سیکیورٹی اداروں نے بھرپور کارروائی کے ذریعے فوری پیشرفت کی۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کے تمام روابط افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں پوری طرح الرٹ ہیں۔

  ہینڈلر اور نیٹ ورک بے نقاب

وزیر اطلاعات نے کہا کہ حملے کے بعد آئی بی اور سی ٹی ڈی نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ساجد اللہ عرف شینا، کامران خان، محمد ذالی اور شاہ منیر کو گرفتار کیا۔ ساجد اللہ عرف شینا حملہ آور کو خودکش جیکٹ پہنچانے والا ہینڈلر تھا۔ تحقیقات کے مطابق حملہ آور افغانستان کا رہائشی تھا اور اسے پاکستان کے مضافات کو ٹارگٹ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔عطا تارڑ کے مطابق حملے کے 48 گھنٹوں میں دہشتگرد نیٹ ورک کا بنیادی حصہ پکڑا گیا، جسے ملکی سلامتی کے لیے بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

 شناخت اور حملے کی تفصیلات

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ساجد اللہ افغانستان واپس جا کر افغان شہری عثمان شنواری سے ملا اور اسے خودکش جیکٹ فراہم کی۔ عثمان شنواری نے بعد میں جی الیون میں خودکش حملہ کیا۔انہوں نے کہا کہ عدالت میں ساجد اللہ عرف شینا کا اعترافی بیان بھی پیش کیا گیا، جس میں اس نے اپنے کردار اور نیٹ ورک کے روابط کا اعتراف کیا۔

افغانستان میں ملاقاتیں

عطا تارڑ نے کہا کہ ساجد اللہ اور محمد ذالی 2025 میں افغانستان گئے جہاں انہوں نے داد اللہ سے ملاقات کی۔ اس دوران وہ فتنہ الخوارج کے دہشتگرد عبداللہ جان عرف ابوحمزہ سے بھی شیگل ضلع میں ملے اور پھر کابل میں داد اللہ سے ملاقات کے بعد نور ولی محسود کے احکامات وصول کیے۔وزیر اطلاعات کے مطابق دہشتگردوں نے ایک خاص ایپ کے ذریعے رابطے برقرار رکھے اور ان کا ٹارگٹ اسلام آباد اور راولپنڈی کے اہم مقامات تھے۔

نور ولی محسود مرکزی منصوبہ ساز

عطا تارڑ نے بتایا کہ حملے کی منصوبہ بندی نور ولی محسود نے اپنے کمانڈر داد اللہ کے ذریعے کی۔ داد اللہ افغانستان ہی میں موجود ہے اور اسی نے حملے کے ٹارگٹس اور حکمتِ عملی دی۔ساجد اللہ نے 2015 میں تحریک طالبان افغانستان میں شمولیت اختیار کی تھی اور مختلف تربیتی کیمپس میں عسکری تربیت حاصل کی تھی۔

حکومت کا عزم

وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ گرفتاریاں اور شواہد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم پیشرفت ہیں اور ریاست اس ناسور کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

Comments are closed.