ایک اسرائیلی اہلکار اور دو باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات پر آئندہ مہینوں میں حملے کا امکان مسترد نہیں کر رہا، اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ فی الحال ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گا۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام نے گذشتہ کئی مہینوں کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کو مختلف حملہ آور منصوبے تجویز کیے، جن میں فضائی حملے اور سپیشل فورسز کی محدود کارروائیاں شامل ہیں۔ یہ کارروائیاں ایران کے جوہری پروگرام کی فوجی مقاصد کے لیے افادیت کو مہینوں یا سال بھر تک روک سکتی ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ ایران کے ساتھ کسی بھی مذاکرات میں اس کے جوہری پروگرام کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے تاحال اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض حملہ آور منصوبے موسمِ بہار کے اختتام یا موسمِ گرما کے لیے مرتب کیے گئے ہیں، لیکن اب اسرائیلی حکام کا ماننا ہے کہ ایک محدود نوعیت کا حملہ ممکن ہے جس کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت کی ضرورت نہ ہو۔
دوسری جانب امریکہ اور ایران کے درمیان عمان کی ثالثی میں ابتدائی جوہری مذاکرات کا دوسرا دور ہفتے کو روم میں منعقد ہو رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو سے ملاقات میں سفارتی راہ کو ترجیح دینے پر زور دیا۔
ایران نے اسرائیلی منصوبوں پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایک سینئر ایرانی سکیورٹی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ تہران کے پاس قابلِ اعتماد ذرائع سے معلومات ہیں کہ اسرائیل جوہری تنصیبات پر بڑے پیمانے پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
ایرانی اہلکار کے مطابق، “یہ حملے کی تیاری ایران کے سفارتی عمل پر عدم اطمینان اور نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل کو بچانے کی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ایران کسی بھی جارحیت کا مضبوط اور فیصلہ کن جواب دے گا۔”
فی الحال اسرائیل کی طرف سے کسی باضابطہ فوجی کارروائی کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم علاقائی کشیدگی میں اضافہ متوقع ہے۔
Comments are closed.