غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے، 30 فلسطینی شہید ؛ وزارت خزانہ کی سابقہ عمارت بھی تباہ

غزہ کی پٹی ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کی زد میں آگئی، بدھ کی صبح شہری دفاع کے مطابق گزشتہ روز کیے گئے فضائی حملوں میں کم از کم 30 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ امدادی ٹیمیں ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے میں مصروف ہیں جبکہ اسرائیلی حکومت نے حملوں کو حماس کی مبینہ فائر بندی خلاف ورزیوں سے جوڑا ہے۔

 تباہی کی شدت

شہری دفاع کے ترجمان محمود بصل کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے منگل کی رات تل الهوّا کے جنوبی علاقے میں کیے گئے، جہاں وزارت خزانہ کی سابقہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق اس عمارت میں بڑی تعداد میں بے گھر خاندان پناہ لیے ہوئے تھے جن کے پاس متبادل رہائش موجود نہیں تھی۔

ی جانی نقصان

غزہ شہر کے وسطی علاقے البریج کیمپ پر بھی اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی، جس میں کم از کم 5 شہری جاں بحق ہوئے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کئی افراد زخمی حالت میں مقامی اسپتالوں میں منتقل کیے گئے ہیں جبکہ ملبے تلے مزید لاشوں کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

اسرائیلی حکام کے بیانات

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق یہ حملے حفاظتی مشاورت کے بعد کیے گئے، جبکہ وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے الزام لگایا کہ حماس نے اسرائیلی فوج پر حملے کیے، جس کے جواب میں یہ کارروائیاں کی گئیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اسرائیل نے حملوں سے قبل واشنگٹن کو مطلع کیا تھا، اور امریکہ نے توقع ظاہر کی کہ کارروائیاں محدود نوعیت کی ہوں گی۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ “10 اکتوبر سے جاری فائر بندی اب بھی برقرار ہے، اگرچہ کچھ چھوٹی جھڑپیں جاری ہیں۔”

حماس کا مؤقف

دوسری جانب حماس نے فائر بندی کی خلاف ورزی کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ حماس کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کا مقصد امن معاہدے کو سبوتاژ کرنا اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا ہے۔
ادھر اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ نیتن یاہو نے امریکی حکام سے مشاورت کے بعد “یلو لائن” کے اندر محدود پیش قدمی کی منظوری دی تاکہ حماس کو سزا دی جا سکے۔

علاقائی ردِعمل

عالمی مبصرین کے مطابق یہ تازہ حملے نہ صرف غزہ میں انسانی بحران کو بڑھا سکتے ہیں بلکہ موجودہ فائر بندی معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے ایک بار پھر تمام فریقین سے تحمل اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی اپیل کی ہے۔

Comments are closed.