یروشلم/غزہ: اسرائیلی فوج نے بدھ کی صبح ایک نئے بین الاقوامی امدادی بیڑے کی کشتیوں کو غزہ کے قریب روک لیا، جو محصور فلسطینی علاقے کے لیے انسانی امداد لے جا رہی تھیں۔ اس کارروائی کی تصدیق اسرائیلی حکومت اور امدادی تنظیم “گلوبل صمود فلوٹیلا” دونوں نے کی ہے۔
اسرائیلی مؤقف: ’جنگی علاقے میں داخلے کی ناکام کوشش‘
اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے سماجی پلیٹ فارم “ایکس” پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ بیڑے نے “جنگی علاقے کو عبور کرنے کی ایک بے سود کوشش” کی۔ وزارت کے مطابق، اسرائیلی نیوی نے کشتیوں کو قابو میں لے کر ایک بندرگاہ منتقل کر دیا ہے اور ان میں سوار غیر ملکی کارکنوں کی “تیز تر ملک بدری” کا عمل شروع کیا جائے گا۔
امدادی تنظیم کا مؤقف: تین کشتیوں پر قبضہ، سگنلز میں خلل
دوسری جانب “گلوبل صمود فلوٹیلا” نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ان کے بیڑے کی کم از کم تین کشتیوں کو روکا ہے۔ تنظیم کے مطابق، اسرائیلی افواج سگنلز میں خلل ڈال رہی ہیں جبکہ کم از کم دو کشتیوں پر فوج سوار ہو چکی ہے۔ بیڑے نے انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ “غزہ کے مظلوم شہریوں تک خوراک، ادویات اور بنیادی امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔”
یہ دوسرا واقعہ چند دنوں میں
یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب چند دن قبل ہی اسرائیلی فوج نے تقریباً 40 کشتیوں پر مشتمل ایک اور امدادی بیڑے کو روکا تھا اور 450 سے زائد بین الاقوامی کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان کارکنوں میں کئی انسانی حقوق کے کارکن اور یورپی پارلیمان کے ارکان بھی شامل تھے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، ان افراد کی ملک بدری کا عمل جاری ہے۔
نیا بیڑا اور ممکنہ تصادم کا خدشہ
اسرائیلی میڈیا، بالخصوص “چینل 13” کے مطابق، فوج نے پہلے ہی ترکیہ سے روانہ ہونے والے ایک اور امدادی بیڑے پر قبضے کی تیاری شروع کر دی تھی، جس پر درجنوں کارکن سوار تھے۔ اسرائیلی حکام کو خدشہ تھا کہ بیڑے کے غزہ پہنچنے پر تصادم ہو سکتا ہے۔
ماوی مرمرہ واقعے کی یاد تازہ
رپورٹس میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ صورت حال 2010 کے “ماوی مرمرہ” واقعے کی یاد دلا سکتی ہے، جب اسرائیلی کمانڈوز نے ایک ترک امدادی جہاز پر چھاپہ مارا تھا جس میں 10 ترک شہری جاں بحق اور 56 زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے نے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔
عالمی سطح پر ممکنہ ردِعمل
تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیل کی تازہ کارروائی سے ایک بار پھر بین الاقوامی تنقید بڑھنے کا امکان ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے ماضی میں بھی غزہ کے محاصرے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
Comments are closed.