سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے فیصلوں کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کے سامنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ تین اہم نکات پر عدالت کی رہنمائی کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پہلے ہی تفصیل سے دلائل دے چکے ہیں، تاہم وہ بھی کچھ اضافی نکات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ان کے دلائل کا دوسرا حصہ مرکزی کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے کروائی گئی یقین دہانیوں پر مشتمل ہو گا، جبکہ تیسرا نکتہ ان ملزمان کے اپیل کے حق سے متعلق ہوگا جو ملٹری ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپیل کا حق دینا ایک پالیسی معاملہ ہے جس پر حتمی موقف دینے کے لیے حکومت سے ہدایات لینا ضروری ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی پالیسی سازی ان کا اختیار ہے، عدالت نے صرف اس مخصوص مقدمے میں قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ انہیں دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ 45 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ فوجی عدالتوں کے متعلقہ قوانین اور شقیں 1967 سے موجود ہیں۔ سماعت کے دوران ملکی اور بین الاقوامی حالات، خاص طور پر سندھ کنال اور بھارت کی حالیہ کارروائیوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.