پشاور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی 18 نومبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔ عدالت عالیہ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرنے کی درخواست پر کی گئی تھی۔
گرفتاری سے روکنے کا حکم
عدالت نے سہیل آفریدی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کسی بھی مقدمے میں ان کی گرفتاری سے روکنے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک کیس کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں، وزیراعلیٰ کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس اعجاز انور کے ریمارکس
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ “وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کس ایف آئی آر میں نامزد ہیں؟”
اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ “ہمیں علم نہیں کہ ان کے خلاف کتنی ایف آئی آرز درج ہیں، ہو سکتا ہے میرے خلاف بھی ایف آئی آر ہو۔” عدالت نے ہدایت دی کہ تمام متعلقہ ادارے وزیراعلیٰ کے خلاف درج مقدمات کی مکمل تفصیلات فوری طور پر جمع کرائیں۔
وزیراعلیٰ کی میڈیا سے گفتگو
قبل ازیں پشاور ہائی کورٹ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے کہا کہ وہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں، اور کوشش ہوگی کہ ملاقات ضرور ہو۔
انہوں نے کہا، “میں کروڑوں عوام کی نمائندگی کرتا ہوں، جو لوگ ملاقات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ میں وزیراعلیٰ ہوں۔”
کابینہ سے متعلق مؤقف
سہیل آفریدی نے مزید کہا کہ ان کی کابینہ سے متعلق جو فہرست میڈیا میں جاری کی گئی ہے، وہ جعلی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ عمران خان سے مشاورت کے بعد ہی اپنی کابینہ کو حتمی شکل دیں گے۔
سیاسی حلقوں میں ردعمل
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت اور عمران خان سے ممکنہ ملاقات خیبرپختونخوا کی سیاسی صورتِ حال پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔ صوبائی سطح پر نئی کابینہ کی تشکیل اور تحریک انصاف کی اندرونی صف بندی کے حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے۔
Comments are closed.