ویب ڈیسک: ترکیہ کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے سربراہ عبداللہ اوجلان نے ہتھیار ڈالنے اور پارٹی تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد گروپ نے ہفتے سے جنگ بندی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق، 25 سال سے جیل میں قید باغی رہنما عبداللہ اوجلان نے جمعرات کو اس اہم فیصلے کا اعلان کیا تھا، جسے ترکیہ اور خطے کی سیاست میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
40 سالہ مسلح جدوجہد کا اختتام
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے 1984 میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کا خاتمہ ہو جائے گا، جس میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پی کے کے کی مسلح کارروائیاں کئی دہائیوں سے ترکیہ، عراق، شام اور ایران کے کرد اکثریتی علاقوں میں جاری تھیں، اور اس کا مقصد ایک آزاد کرد ریاست کا قیام تھا۔
ترکیہ کے صدر ایردوان کو سیاسی فائدہ
تجزیہ کاروں کے مطابق، اس اعلان سے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کو سیاسی فائدہ پہنچے گا اور جنوب مشرقی ترکیہ میں امن و استحکام کی نئی راہیں کھلیں گی، جہاں اس تنازع کے باعث اقتصادی ترقی متاثر ہو رہی تھی۔
جنوب مشرقی ترکیہ اور شام کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں کرد آباد ہیں۔ ترک حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ پی کے کے جنگجو ترکیہ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ملوث رہے ہیں، اور ترک فوج نے وقتاً فوقتاً ان کے خلاف آپریشنز کیے ہیں۔
خطے کی سیاست پر اثرات
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکیہ خطے میں اپنی پالیسیوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے ترکیہ اور کرد برادری کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے اور خطے میں دیرپا امن قائم ہونے کی امید بڑھ گئی ہے۔
Comments are closed.