تفتیشی اداروں کی بڑی کارروائی: را کا نیٹ ورک بے نقاب، ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزمان گرفتار

پاکستان کے تفتیشی اداروں نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کر دیا ہے جو ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ آزاد خان اور ڈی آئی جی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 18 مئی 2025 کو بدین کے علاقے ماتلی میں فلاحی کاموں سے شہرت رکھنے والے زمیندار عبدالرحمن کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں تحقیقات آگے بڑھائی گئیں۔

ملزمان کی گرفتاری اور اسلحہ برآمد
تحقیقات کے نتیجے میں دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے واردات میں استعمال ہونے والے پستول اور موٹر سائیکل برآمد ہوئے۔ گرفتار افراد نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ اس قتل کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را ملوث ہے۔ مزید یہ کہ کراچی میں دہشت گردوں کے لیے را کا ایک سیف ہاؤس بھی قائم تھا۔

را کی فنڈنگ اور ایجنٹس کا انکشاف
ایڈیشنل آئی جی کے مطابق ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے منصوبے بیرونِ ملک تیار کیے گئے تھے۔ را ایجنٹ سنجے سنجیو کمار عرف “فوجی” نے خلیجی ریاست میں مقیم پاکستانی سلمان اور ارسلان کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کیا۔ بعد ازاں سلمان نے عمیر، سجاد، عبید اور شکیل پر مشتمل ایک ٹارگٹ کلرز گینگ بنایا۔
را نے اس نیٹ ورک کو بھاری فنڈنگ فراہم کی جو بینکنگ چینلز کے ذریعے منتقل کی گئی۔

اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی
سی ٹی ڈی حکام نے بتایا کہ گرفتار ٹارگٹ کلرز کے قبضے سے 9 ایم ایم پستول، 30 بور پستول، 125 مارٹر شیل اور ایک بم بھی برآمد ہوا۔ شواہد سے ظاہر ہوا ہے کہ را کراچی اور دیگر شہروں میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے منصوبوں میں ملوث رہی ہے۔

کالعدم تنظیم سے تعلق اور آئندہ منصوبے
گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ را کے لوکل ایجنٹس کے طور پر کام کر رہے تھے اور ان کا تعلق کالعدم تنظیم ایس آر اے سے بھی ہے۔ دورانِ تفتیش مزید نام سامنے آئے ہیں جو آئندہ ٹارگٹس کے طور پر شامل کیے گئے تھے۔

بھارتی میڈیا کا کردار
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے انکشاف کیا کہ عبدالرحمن کے قتل پر بھارتی میڈیا نے جشن منایا جو اس نیٹ ورک کی بھارتی پشت پناہی کا واضح ثبوت ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات
سی ٹی ڈی نے گرفتار ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر دیے ہیں جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں تاکہ اس پورے نیٹ ورک کو مکمل طور پر بے نقاب کیا جا سکے۔

Comments are closed.