حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات اور تجارت شروع کرنے سے متعلق عسکری قیادت کی باتوں پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ملک میں معتبر سیاسی قیادت ہوتی تو فوجی سربراہ اینکرز کو بلا کر خطے کی صورتحال پر اپنا فلسفہ پیش نہ کرتا۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ ہفتے مختلف اینکرز کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت شروع ہوتی ہے تو اس عمل کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی رہائش گا پر ختم قرآن پاک کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے بعد پہلے سے بہتر طاقت کے ساتھ میدان میں ہوں گے، جب بلکل تنہا تھے تب بھی پورے ملک کی سیاست پر چھائے ہوئے تھے، اب اگر کوئی اکا دکا جماعت ادھر ادھر ہو جائے تو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔
اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آج کشمیر کا سودم کر کے کشمیریوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، قوم کے مستقبل کے فیصلے منافقت کے ساتھ اور چوری چھپے کئے جارہے ہیں، ہرمسئلے پر مفاہمت کے راستے ڈھونڈھ رہے ہیں، مفاہمت کے نام پر کیے جانے والے فیصلوں کی کالک پارلیمنٹ کے ماتھے مل دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کے ساتھ جھوٹ بولا جارہا ہے کہ بھارت بات کرنا چاہتا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری پوزیشن کمزور ہوتی جارہی ہے اور ہم ترلے کررہے ہیں، کیونکہ ہم 24 گھنٹے تک بھی جنگ لڑنے کے قابل نہیں، اپنی کمزوری کی وجہ سے بھارت کے ساتھ مفاہمت کی طرف جارہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں میں معاملات چلانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،سیاست ہی ختم ہوچکی، ہمیں ایسی قیادت کو آگے لانا ہوگا جس پر قوم اعتماد کرے، اگر آپ آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں ہو تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنے پڑیں گے، قومی معاملات میں دھاندلی، بے ایمانی اور زور زبردستی نہیں چلے گی، اپنے حلف اور عہد کی پاسداری کے تحت معاملات کو چلانا ہوگا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے مزید کہا کہ آج اشاروں کنایوں میں بات کہہ دی ہے، امید ہے جہاں پہنچنی چاہیئے پہنچ جائے گی، ہم ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کوئی چوری چھپے قوم سے دھوکہ نہیں کر سکتا، لوگ پاگل ہوئے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرو، اسرائیل تو تمہارا بعد میں ہے، پہلے تم فلسطین کو تو تسلیم کرو۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی اسلحہ نہیں اٹھایا ہو، نہ ہی ہمارا ایسا نظریہ ہے، علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہم نے ملک کے آئین کے ساتھ چلنا ہے، ملک پر پنجے گاڑے ہوئی مقتدر قوتوں کو بھی اسی طرز عمل کا احترام کرنا ہوگا، اگر احترام نہیں ہوگا تو پھر معاملات بگڑ سکتے ہیں، جن کو شاید کوئی نہیں سنبھال سکے گا، ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ معاملات بہتر بنائے جاسکیں۔
Comments are closed.