مسابقتی کمیشن کی تحقیقات میں ڈیری سیکٹر کے اندر میگا سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے، عوام کی جیبوں پر روزانہ کروڑوں روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا اور ماہانہ 47 ارب روپے لوٹے گئے۔
کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے ڈیری سیکٹر میں ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز کی مبینہ کارٹیلائزیشن اور مقابلے کی فضا کی مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرلیں ہیں۔ جس میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی تین بڑی ڈیری ایسوسی ایشنز کے کارٹیلائزیشن اور پرائس فکسنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔
ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن (ڈی ایف اے) کی مبینہ گٹھ جوڑ سے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک مشہور کنزیومر ایسوسی ایشن کی طرف سے کمیشن کو لکھے گئے خط اور میڈیا کی رپورٹس کی روشنی میں یہ انکوائری شروع کی گئی تھی۔ شکایت میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ڈی ایف اے کراچی کے صد ر نے کراچی میں دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا اور دودھ اب کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ 94 روپے کے مقابلے میں 120 روپے فی لیٹر میں فروخت ہورہا ہے ۔
حکومت کی طرف سے مقرر کردہ دودھ کی قیمت 94 روپے فی لیٹر تھی جبکہ ایسوسی ایشن نے ملی بھگت سے 120 روپے فی لیٹر پر فروخت کیا، اس کے نتیجے میں صارفین کو روزانہ تقریبا 13 کروڑ روپے اور سالانہ 47 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ دوسری طرف، قیمتوں پر کوئی کمپٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ کو متاثر کیا اور صارفین کو دودھ کے معیار سے قطع نظر غیر منصفانہ قیمتوں کی ادائیگی کرنا پڑی ۔
کمیشن نے ان الزامات کی جانچ پڑتال کے لئے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کے مطابق دودھ کی سپلائی چین تین مراحل پر مشتمل ہے جس میں ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور رٹیلرز شامل ہیںرٹیلرز کو دودھ سالانہ ‘باندھی’ کے نام سے معاہدہ کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے جس میں دودھ کی خریداری کے لئے شرح اور مقدار کو مختلف ایسوسی ایشنز مقرر کرتے ہیں۔
انکوائری کمیٹی کے مطابق، کمشنر کراچی ڈویڑن دودھ سپلائی چین کے تمام مراحل پر قیمتوں کو نوٹیفائی کرتا ہے اور اس طرح کا آخری نوٹیفکیشن 14 مارچ ، 2018 کو جاری کی گیا تھا جس میں ڈیری فارمرز کے لئے 85 روپے فی لیٹر ، ہول سیلرز کے لئے 88.75 روپے ، اوررٹیلرز کیلئے 94 روپے فی لیٹر پرائس کو فکس کیا گیا تھا ۔ تاہم ، ادارہ برائے شماریات (پی بی ایس) کے ڈیٹا سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دودھ کی سپلائی چین میں شامل مختلف ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز کے کردار کی وجہ سے نوٹیفائی پرائس پر عملدرامد نہیں کیا گیا۔
فروری 2021 میں ایک شکایت گزار نے کمیشن کے ساتھ کچھ ویڈیو فوٹیجز بطور ثبوت اور کراچی میں فریش دودھ کی قیمتوں کو طے کرنے میں ملوث ’کارٹیل‘ کے وجود کے دیگر ثبوتوں کو شیئر کیا۔ مبینہ کارٹیل ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی)، ڈیری فارمرایسوسی ایشن، کراچی (ڈی ایف اے سی) اور ملک رٹیلر ایسوسی ایشن کے نمائندوں پرمشتمل ہے۔
رٹیلرز اور ڈیری فار مز کے نمائندوں کے بیانات کے مطابق ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کراچی ، ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی ، کراچی ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن ، اور آل کراچی فریش ملک ہول سیلرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندے فارم گیٹ پرائس ، ہول سیل پرائس اور رٹیل پرائس کو بھی طے کرتے ہیں۔ اگر کوئی رٹیلر با ندھی کے مقررہ کردہ نرخ پر دودھ خریدنے سے انکار کرتا ہے تو ، ایسوسی ایشن اسے دودھ کی فراہمی بند کرنے دیتی ہے اور لی مارکیٹ میں واقع منڈی میں دودھ فروخت کر دیتی ہے۔
ترجمان سی سی پی کے مطابق کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور راولپنڈی کے مابین دودھ کے نرخوں کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صرف کراچی میں دودھ کی قیمتیں یکساں طور پر بڑھیں ہیں ، جبکہ دیگر تمام شہروں میں قیمتیں مختلف ہیں۔ قیمتوں میں یہ یکسا نیت مختلف ڈیری ایسوسی ایشنز کی جانب سے پرائس فکسیشن کی طرف اشارہ کرتی ہے جو کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی ہے۔
شواہد کی روشنی میں انکوائری کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جولائی 2020 اور فروری 2021 میں متعلقہ مارکیٹ میں پرائس فکس کرنے کا فیصلہ بنیادی طور پر ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی) نے لیا۔ اس کے فورا بعد دو دوسری ڈیری فارمر ایسوسی ایشنز ، جس میں ڈیری فارمر ایسوسی ایشن، کراچی (ڈی ایف اے سی) اور کراچی ڈیری فارمر ایسوسی ایشن (کے ڈی ایف اے) شامل ہیں، نے بھی پرائس فکس کر دی جس سے متعلقہ مارکیٹ میں دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ تینوں ڈیری ایسوسی ایشن کی ملی بھگت کے بغیر متعلقہ مارکیٹ میں دودھ کے نرخوں میں اضافہ ممکن نہیں تھا۔ لہذا ، متعلقہ مارکیٹ میں پرائس فکس کرنے کا فیصلہ کمپٹیشن ایکٹ کے سیکشن 4 (1) اور سیکشن 4 دو اے کی خلاف ورزی ہے۔
ان نتائج کی روشنی میں ، انکوائری کمیٹی نے کمیشن کو سفارش کی کہ وہ پر ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کراچی (ڈی سی ایف اے سی) ، ڈیری فارمر ایسوسی ایشن ، کراچی (ڈی ایف اے سی) اور کراچی ڈیری فارمر ایسوسی ایشن (کے ڈی ایف اے) کے خلاف ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت کارروائی شروع کر ے۔
Comments are closed.