اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ لاپتہ ا فراد بازیا ب نہ ہوئے تو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو گھر جانا پڑے گا۔ بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد خود کو مستثنیٰ قرار نہیں دے سکتے۔ وزیر داخلہ دو ہفتوں میں مکمل رپورٹ پیش کریں۔
بلوچ طلباء بازیابی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت جسٹس محسن اخترکیانی نے کی ۔نگران وزیر داخلہ اور نگران وزیر انسانی حقوق عدالت میں پیش ہوئے ۔اسلام آباد ہائیکورٹ کی وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کریں اور دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کریں، لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کیخلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بائیس افراد اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں جبکہ اٹھائیس ابھی بھی لاپتہ ہیں ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پاکستان میں جس کا جو دل چاہا رہا ہے وہ کررہا ہے۔ کسی پیغام کو مانتا ہوں نہ مجھے کوئی بند کمرے میں ملنے کی کوشش کرے گا ،جو بھی بتانا ہے عدالت میں بتائیں ۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد خود کو مستثنیٰ قرار نہیں دے سکتے ، لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو آپ کو اور وزیراعظم کو گھر جانا پڑے گا ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ انشاللہ ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں گے ۔
دوسری جانب وزرات داخلہ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر ایڈیشنل سیکرٹری کو فوکل پرسن مقرر کردیا ۔ عدالت نے درخواست گزار کو تمام لاپتہ افراد کی تفصیلات فوکل پرسن کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ فوکل پرسن کیس ٹو کیس تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کریں ۔کیس کی مزید سماعت 10 جنوری 2024 کوہوگی ۔
Comments are closed.