مولانا طارق جمیل صاحب نے ’ایم ٹی جے‘ کے نام سے اپنے برینڈ کا آغاز کیا تو سوشل میڈیا پر ادھم مچ گیا،کہا جا رہا ہے ’ایم ٹی جے‘ برینڈ کا ناڑہ 550 روپے کا اور بنیان 1150 روپے کی ہے،کیا واقعی ایسا ہے اس کی تصدیق کرنا بھی شاہد ہی کسی نے گواراہ کی ہو؟
لیکن میرا سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا تجارت کرنا کوئی جرم ہے؟ کیا صحابہ کرام رضہ نے تجارت نہیں کی؟ اور کیا طارق جمیل صاحب نے پورے پاکستان پر پابندی عائد کر دی ہےکہ ان کے آوٹ لٹ سے ہی شاپنگ کریں؟
طارق جمیل صاحب کی آڑ میں مذہب سے جڑے لوگوں کو نشانے پر رکھ کر دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے، آپ 2 سے 3 ہزار کا بیلٹ تو بہت فخر سے خریدتے ہین اور پھر دوستوں کو دیکھاتے بھی ہیں، جنید جمشید(جے ڈاٹ) سے 4 ہزار کا کرتا بھی شوق سے خریدتے ہیں اور کالر الٹا کر کے ٹیگ بھی دوستوں کو دکھاتے ہیں، کہ جے ڈاٹ کا ہے، اس وقت تو تکلیف نہیں ہوتی؟
صرف اس لیے کہ بیلٹ ہو،کرتا یا جوتے ،یہ سب سامنے نظر آنے والی چیزیں ہیں۔ناڑہ بھی اگر بیلٹ کی طرح شلوار کے باہر باندھنے والی چیز ہوتی یا بنیان بھی شرٹ کی طرح پہنی جاتی تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا،لیکن قیمض اٹھا کر ناڑہ کسی کو دکھانے سے تو رہے، کہ 550 کا ہے،اب اس کا سارا غصہ مولانا پر اتر رہا ہے اور لغو قسم کی پوسٹس سے ان کی تضحیک کی جا رہی ہے۔
ایسے دانشوروں کو میرہ مشورہ ہے کہ پہلے کی طرح ریڑھی والے سے 20 روپے کا ناڑہ اور 100 روپے والی بنیان ہی خریدیں اگر طارق جمیل صاحب نے ان کے خلاف کوئی فتوی جاری کیا تو میں ذمہ دار ہوں گا۔۔۔طارق جمیل صاحب نے اگر قیمتیں زیادہ رکھی ہیں تو ساتھ دوسری دکان پر یہی چیزیں سستی دستیاب ہوں گی، لوگ وہاں سے خرید سکتے ہیں،اور جو لوگ صرف برینڈ کی چیزیں پہنتے ہیں وہ افورڈ بھی کرتے ہوں گے وہ ’ایم ٹی جے‘ ہو یا کوئی اور برینڈ۔۔
یہ مسئلہ طارق جمیل صاحب کا نہیں،ہماری سوچ کا ہے ،صرف یہ دکھانے کے لیے کہ ہم نام نہاد لبرلز ہیں، ایک ممتاز عالم دین کی تضحیک کی جارہی ہے، ہمیں دل بڑے کرنا ہوں گے اور اس ملک کے مولوی کو بھی اپنی معاشی زندگی بہتر بنانے کا حق دینا ہوگا لیکن شاہد ہم مولوی کو صرف مسجد میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ مہینے کے ،دس،بارہ ہزار لے اور ہمیں پانچ نمازیں جمعہ، عید اور ہمارے جنازے بھی پڑھائے،اس کے بال بچے بے شک ہر روزمرتے رہیں۔
Comments are closed.