سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی اور دیگر اہم شخصیات کی مبینہ آڈیو لیکس کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر فوری سماعت کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کو خط ارسال کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کون سا قانون خفیہ ریکارڈنگز کرنے کا حق دیتا ہے، یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے سپریم کورٹ کے ججز کو لکھے گئے خط میں کہا کہ آئین کے تحت بنیادی حقوق خصوصاً آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ عمران خان نے آڈیو لیکس سے متعلق 8 اہم ترین سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیئے۔ خط میں کہا گیا کہ گزشتہ کئی مہینوں سے مشکوک اور غیرمصدقہ آڈیوز کےمنظرِ عام پر آنےکا سلسلہ جاری ہے، منظرِعام پر آنے والی مبینہ آڈیوز مختلف موجود و سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کے مابین گفتگوؤں پر مبنی ہیں، منظرِعام پر آنے والی آڈیوز غیرمصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان آڈیو کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کرکے ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے، چند ماہ پہلے بعض ایسی آڈیوز منظرِعام پر آئیں جن کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس سے متعلق تھیں، ان آڈیوز سے تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی خفیہ نگرانی یا یہاں ہونے والی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگز ایک معمول تھا، ایوان وزیراعظم بلاشبہ ریاست کا حساس ترین ایوان ہے جہاں قومی حساسیت کے حامل معاملات پر تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے،خط میں کہا گیا کہ ایوانِ وزیراعظم کی سیکیورٹی پر نقب سے عوام کی سلامتی، تحفظ اور مفادات و حیات پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں، قومی شواہد موجود ہیں کہ ان غیرمصدقہ و جعلی آڈیوز کے ذریعے تنقیدی آوازوں کو دبایا جانا مقصود ہے،جھ سمیت کئی سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد ان جعلی، غیرمصدقہ اور کانٹ چھانٹ سے تیار کردہ لیکس کا نشانہ بن چکے ہیں، دیگر بہت سے افراد کے ساتھ سینیٹر اعظم سواتی کے پرائیویسی کے بنیادی آئینی حق کو بری طرح پامال کیا گی۔
خط میں کہا گیا کہ پاکستان میں آئین کی تخلیق کے دوران متعدد حقوق کو دستور کا حصہ بنایا گیا، دستور کا آرٹیکل 4 ہر شخص کو قانون کا تحفظ فراہم کرتا اور قانون ہی کے تحت سلوک کا حق دیتا ہے، یہی دستور ہر فرد کی عزت و ناموس اور چادر و چار دیواری کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے، مگر دستور کے تحت افراد کو میسر یہ حقوق ناقابلِ جواز ڈھٹائی اور صریح دیدہ دلیری سے پامال کئے جارہے ہیں۔پرائیویسی سمیت دیگر بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے میں نے اکتوبر 2022 میں ان آڈیو لیکس پر آرٹیکل 184(3) کے تحت معزز عدالت کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی، بدقسمتی سے اب تک میری یہ درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ کی جا سکی، میری درخواست کے بعد معاملات بہتری کی بجائے مزید ابتری کے شکار ہوچکے ہیں، آئین کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا محاسبہ نہ ہونے پر ان میں ملوث کردار مزید بےخوف ہوکر اس جعلی مواد کو فروغ دے رہے ہیں، بدقسمتی سے حال ہی میں سابق وزیراعلیٰ اور سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے مابین مبینہ گفتگو خفیہ طور پر سماجی میڈیا پر جاری کی گئی، واضح ہوچکا کہ اب عوام معمول کے تحت اس خفیہ نگرانی و ریکارڈنگز کا نشانہ بن رہے ہیں،ان ریکارڈنگز کو اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ، توڑ مروڑ اور ردوبدل کرکے منظرِعام پر لانے کا سلسلہ بلاروک جاری ہے۔
عمران خان نے کہا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا قانون عوام الناس کی اس وسیع پیمانے پر نگرانی و خفیہ ریکارڈنگز کی اجازت دیتا ہے، یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قانون اس نگرانی و ریکارڈنگز کا حق کسے دیتا ہے، یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کی حدود و قیود کیا ہیں، یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا، اس سوال کا جواب بھی لازم ہے کہ اس نگرانی و ریکارڈنگز سے حاصل کئے گئے مواد کی حفاظت کا کیا انتظام ہے، کیا محض کسی کی مرضی سے شہریوں کی باہم بات چیت خفیہ طور پر ریکارڈ اور توڑ مروڑ کر منظرِعام پر لانے کو گوارا کیا جاسکتا ہے۔
خط کے مطابق گزشتہ چند ماہ سے جاری قانون سے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اس سلسلے کو روکنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے، آیا ہمارے وہ حساس ترین ایوان جہاں اہم ترین معاملات پر فیصلہ سازی کی جاتی ہے، محفوظ ہیں، اگر آئین کے تحت فراہم کردہ حقوق کچھ اہمیت رکھتے ہیں تو پاکستان کے عوام ان سوالات کے جوابات کے حقدار ہیں، عمران خان کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے کہ ان غیرمصدقہ و غیر مجاز آڈیو لیکس کے معاملے پر میری آئینی درخواست فوراً سماعت کیلئے مقرر کی جائے،ملک کے اعلیٰ ترین ایوانِ عدل سے دستور کے تحت میسر حقوق کے تحفظ کی ضمانت کے حصول کی خواہش یقیناً تنہا میری ہی نہیں، قوم امید کرتی ہے جب دستور انہیں کچھ حقوق فراہم کرتا ہے تو بہرحال ان حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
Comments are closed.