صدر جو بائیڈن نے انٹرویو میں غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل اور فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر تنقید کی۔
ایک ایسے وقت میں جب جنگ آٹھ ماہ کے قریب پہنچ رہی ہے، اسرائیلی رہنما کو، متضاد مطالبات کا سامنا ہے، ایک طرف بائیڈن اور دیگر عالمی رہنماؤں کی طرف سے اس تنازعہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت میں نیتن یاہو کی حمایت ترک کر دیں گے اور ان کی حکومت کو ختم کر دیں گے، اگر وہ غزہ میں حماس کے کنٹرول کے آخری نشانات کو مٹائے بغیر جنگ بندی سے اتفاق کرتے ہیں۔
حماس نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک کسی معاہدے پر رضامند نہیں ہو سکتے جب تک کہ اسرائیل مستقل جنگ بندی اور غزہ سے فوجیوں کے مکمل انخلاء کا “واضح” وعدہ نہیں کرتا۔
نیتن یاہو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیلی افواج حماس کے تمام عناصر کو ختم کیے بغیر غزہ سے نہیں جائیں گی۔
قطر نے بھی، جو امریکہ اور مصر کے ساتھ، قاہرہ میں حماس اسرائیل مذاکرات میں ثالثی کر رہا ہے، اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ارادوں کے بارے میں واضح موقف فراہم کرے جس کو معاہدے تک پہنچنے کے لیے اس کی پوری حکومت کی حمایت حاصل ہو۔
رپورٹرز نےصدر جو بائیڈن سے پوچھا کہ آیانیتن یاہو جنگ کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں، تو بائیڈن نےبظاہر پیچھے ہٹتے ہوئے نامہ نگاروں کو بتایا، “مجھے ایسا نہیں لگتا۔ وہ ایک سنگین مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
بائیڈن نے تسلیم کیا کہ ان کے اور نیتن یاہو کے تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 36,000 سے تجاوز کر گئی ہے، ان اعداد و شمار میں عام شہری اور جنگجو شامل ہیں۔
ان میں خاص طور پر اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا جنگ کے بعد تجدید شدہ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ پر حکومت کرنی چاہیے؟ جس کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنا کوئی تفصیلی منصوبہ پیش کیے بغیر اسے مسترد کر دیا ہے۔
بائیڈن نے کہا، نیتن یاہو سے میرا ایک بڑا اختلاف یہ ہے کہ غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا اسرائیلی افواج واپس اس کے (غزہ کے) اندر چلی جائیں گی؟
انہوں نے کہا،”جواب ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔” اس پر یقین کرنے کی “ہر وجہ” موجود ہے کہ نیتن یاہو خودکو سیاسی طور پر بچانے کے لیے غزہ کی جنگ کو طول دے رہے ہیں۔
Comments are closed.