اسلام آباد : ملک میں ایک ہی دن الیکشن کروانے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی مزاکرات کیلئے ٹائم فریم دینے کی استدعا مسترد کردی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ مذاکرات عدالت کا حکم نہیں صرف تجویز ہے۔ مذاکرات کیلئے ابھی کوئی ہدایت دے رہے ہیں نہ ٹائم لائن۔ اگر مزاکرات سے حل نہ نکلا تو آئین بھی موجود ہے اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے ۔
سپریم کورٹ میں ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرنے سے متعلق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے مزاکرات پر پیشرفت اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی کا تذکرہ کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے، وہ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔حکومت مزاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازعہ کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے صرف حل بتائیں۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دئیے کہ چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے ۔مذاکرات تو سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے حکومت کی جانب سے رابطہ کرنے کا شکوہ کردیا اور سینیٹ کمیٹی کو تاخیری حربہ قرار دے دیا۔ ایک جماعت جو مزاکرت سے انکاری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، مذاکرات کے معاملے میں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا، عدالت کا کوئی حکم نہیں ۔ صرف تجویز ہے، قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسے ہی چلے گا۔ فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تا کہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔
فواد چودھری نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے علی ظفر نے کہا مذاکرات کے لیے وقت مقرر کرنا لازمی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج توقع تھی کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی، مذاکرات تو پہلے ہی ہوجانے چاہیے تھے۔ نام دینے میں کیا سائنس ہے۔ تحریک انصاف والے چاہتے ہیں آج ہی مذاکرات ہوں ، ہم نے حکومت کو دیکھنا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے کیا کر رہی ہے، فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تا کہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔ عدالتی فیصلے، آئین اور قانون موجود ہے، ہم نہ کوئی ہدایت جای کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریک لبیک کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ انتخابات چاہتے ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم ملک میں انتخابات چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پھر تو بات ہی ختم سمجھیں۔ سب کو علم ہے آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، خدا کے واسطے آئین کے لئے اکٹھے بیٹھ جائیں، اس کیس کا تحریری فیصلہ اور مناسب حکمنامہ جاری کریں گے۔ سپریم کورٹ نے بغیر تاریخ دئیے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
Comments are closed.