وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ بشکیک میں جب دو طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم ہوا تو پاکستانی طلبہ بھی اس تصادم کی زد میں آ گئے حالانکہ پاکستانی طلبہ ان کا ٹارگٹ نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب واقعہ پیش آیا تو وزیراعظم آفس اور دفتر خارجہ فوری حرکت میں آئے اور حکومت نے بروقت نوٹس لیتے ہوئے وزارت خارجہ میں ایمرجنسی رسپانس سیل فعال کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ پچھلے دو دنوں سے لمحہ بہ لمحہ مسلسل صورتحال کو مانیٹر کر رہے ہیں، اس وقت پاکستان کے چھ طلبا تین مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مخصوص پروپیگنڈا کیا گیا جس میں بنگلہ دیش کے ایک طالب علم کی تصویر لگا کر اسے پاکستانی ظاہر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے کرغزستان میں پاکستان کے سفیر حسن علی ضیغم سے بات کی جس پر سفیر نے انہیں بتایا کہ کوئی پاکستانی طالب علم جاں بحق نہیں ہوا اور نہ ہی کسی طالبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس واقعہ کو غلط رنگ دیا گیا اور والدین سے کہا گیا ان کی بچیوں سے زیادتی ہوئی ہے اور آپ کے بچے جاں بحق ہو گئے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے والے اللہ سے ڈریں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کرغزستان کی وزارت خارجہ نے ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں دونوں ممالک کے طلبا ساتھ بیٹھے ہیں۔ عطا تارڑ نے کہا کہ ہر پاکستانی کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بشکیک میں مقیم پاکستانی طلبا کا ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے جو طالب علم پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔ ۔انہوں نے کہا کہ کئی طالب علم پڑھائی کا حرج ہونے کی وجہ سے واپس نہیں آنا چاہتے اگر کوئی واپس آنا چاہتا ہے تو وہ خود کو رجسٹر کروائے۔
انہوں نے کہا کہ جو طلبا اپنے خاندانوں کے ساتھ بشکیک میں مقیم ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں، ان کی واپسی کیلئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں اور ان کی وطن واپسی کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ میرا خود طالبعلموں کے ساتھ رابطہ رہا ہے، ہمارے سفیر ان طلبہ سے مسلسل رابطے میں ہیں، حکومت کی پوری مشینری اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
Comments are closed.