نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی

سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معروف نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قتل کے الزام میں سزائے موت برقرار رکھی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ریپ کیس میں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا ہے، جبکہ اغواء کے مقدمے میں 10 سال قید کی سزا کو کم کرکے ایک سال کر دیا گیا۔ عدالت نے نور مقدم کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم بھی برقرار رکھا ہے۔

مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کی سزاؤں میں کمی کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ جتنی سزا کاٹ چکے، وہی کافی ہے۔

سماعت کے دوران ظاہر جعفر کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ کیس کے شواہد صرف سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر مبنی ہیں، اور عدالت اس سے باہر شواہد پر غور نہیں کر سکتی۔ تاہم عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نور مقدم کی لاش کا ظاہر جعفر کے گھر سے برآمد ہونا ہی کافی ثبوت ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لڑکا اور لڑکی کا ایک ساتھ رہنے کا رشتہ ہماری معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نور مقدم اپنی مرضی سے ظاہر جعفر کے گھر آئی تھی، تاہم یہ اغواء کے جرم کو ختم نہیں کرتا۔

واضح رہے کہ 27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے F-7 سیکٹر میں بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور ٹرائل کے بعد اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔

Comments are closed.