پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو امن کے لیے نادر موقع قرار دیا
نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اجلاس کے دوران پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے کو خطے میں قیامِ امن کے لیے “نادر موقع” قرار دے دیا۔ پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگرچہ غزہ میں امن کے امکانات بظاہر معدوم دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ منصوبہ ایک نئی سفارتی راہ ہموار کر سکتا ہے جس سے خطے میں مذاکرات اور مصالحت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
پاکستان کی فعال شمولیت اور سفارتی کردار
عاصم افتخار نے واضح کیا کہ پاکستان اس مشاورتی عمل میں فعال طور پر شریک رہے گا اور ہر اُس کوشش کی حمایت کرے گا جو فلسطینی عوام کے دیرینہ مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سفارتی و انسانی بنیادوں پر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور عالمی برادری کو بھی اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
اسرائیلی بستیوں پر کڑی تنقید
پاکستانی مندوب نے اسرائیل کے متنازعہ E1 بستی منصوبے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام دو ریاستی حل پر براہِ راست حملہ ہے۔ ان کے مطابق مشرقی یروشلم کو فلسطین سے کاٹنے اور مغربی کنارے کی جغرافیائی وحدت ختم کرنے کی کوشش کھلی خلاف ورزی ہے جو نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بھی خلاف ہے۔
دو ریاستی حل پر پاکستان کا مؤقف
عاصم افتخار نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ دو ریاستی حل ہی واحد قابلِ عمل راستہ ہے، جو 1967ء کی سرحدوں کے مطابق اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ایسے اقدام کو قبول نہیں کیا جا سکتا جو اس اصولی حل کو کمزور کرے۔
سلامتی کونسل سے فوری اقدامات کا مطالبہ
پاکستانی مندوب نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور فوری طور پر ایسی قرارداد منظور کرے جو اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے، ان کی توسیع کو روکے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
اضافی تناظر
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا یہ مؤقف ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں امن کا عمل کئی دہائیوں سے تعطل کا شکار ہے اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا آیا ہے اور اس کی یہ پوزیشن اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے رکن ممالک کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے منصوبے پر مختلف رائے پائی جاتی ہے — اسرائیل نے اس کی حمایت کی ہے جبکہ حماس اور دیگر فلسطینی دھڑے اس پر تحفظات رکھتے ہیں۔
Comments are closed.