اب ایسا نہیں چلےگا

تحریر: عمران اعظم

اسلام آباد: پاکستان اس وقت بدترین معاشی صورتحال سے دوچار ہے اور ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے جس سے نکلناکسی معجزے سے کم نہیں ہوگا، سیاستدانوں کو شاہد اب بھی احساس نہیں ،یہی وجہ وجہ ہے کہ وہ اس وقت بھی اپنی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں میں صرف کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے سارا ملبہ دو ماہ کی حکومت پر ڈال دیاتو موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ سب گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور بروقت فیصلے نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔پٹرولیم مصنوعات پر اگر عبد الحفیظ شیخ کے دور میں سبسڈی ختم کردی جاتی جب عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم تھیں تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، الٹا آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کی نصف ادائیگی کے بعد سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں جس کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے 6 ارب ڈالر کے پروگرام کے باقی 3 ارب ڈالر بھی روک لیے، معاشی ماہرین کے مطابق برقت سبسڈی ختم نہ کرنے کیساتھ پٹرولیم مصنوعات 10 روپے سستی کرنے کے فیصلے نے معاشی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ،یہ صرف اور صرف ایک سیاسی فیصلہ تھا جس کی قیمت پاکستان چکا رہا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات پر اس سے قبل ماہانہ 112 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی تھی جو اب صٖفر کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکدم ہوشرباء اضافہ ہوا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں معمولی کمی آئی ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق سبسڈی ختم کرنے کے بعد ابھی پٹرولیم مصنوعات پر لیوی اور جی ایس ٹی عائد ہونا باقی ہے جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں بھی 7 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا جبکہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھی بجلی آئندہ ماہ 8 رو پے یونٹ مہنگی ہوگی ۔ یوں اگست کے بلوں میں 15 روپے اضافے کیساتھ فی یونٹ قیمت 28 روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

 ہمارے سیاست کا المیہ رہا ہے کہ ہرحکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت سے آگے سوچنے کی زحمت گورا نہ کی ۔حکومت میں آتے ہی آئی ایم ایف سے ایک پانچ سالہ پروگرام لیا گیا ، نیا قرض لیکر پراناقرض ادا ہوتا رہا ،اسی سے کچھ بڑےنمائشی منصوبے کھڑے کر کے عوا م سے داد وصول کی اور نئی حکومت کی راہ میں کانٹے بچھا کر چل دئیے۔نئی حکومت آئی تو وہ بھی روتی دھوتی آئی ایم ایف کے پاس پہنچی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، لیکن اب یہ کھیل مزید نہیں چل سکتا۔

 اتحادی حکومت نے مالی سال 2022-23 کے لیے 9502 ارب روپے کاوفاقی بجٹ پیش کیاہے جس میں 3950 ارب قرضوں کی ادائیگی اور سود کے لیے مختص کیے گئے جبکہ 1530 ارب دفاع کے لیے رکھے گئے ہیں جس میں سابق فوجیوں کی پنشن شامل نہیں ،سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی پنشن کے لیے 530 روپے مختص کیے گئے ہیں، ان میں سے 395 ارب روپے فوجیوں کی پنشن جبکہ 135 ارب روپے سو یلین کی پنشن پر خرچ ہوں گے ، تعلیم کے لیے صرف 90 ارب جبکہ صحت عامہ کے لیے 19 ارب روپے رکھے گئے ہیں، وفاق کا ترقیاتی بجٹ بھی صرف 800 ارب روپے کاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ 4582 ارب روپے کے خسارے کے بجٹ اور صرف 9 ارب روپے کے زرمبادلہ کے ذخائر کیساتھ آئندہ مالی سال صورتحال کیسی ہوگی جبکہ پاکستان کو یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال صرف غیرملکی قرضوں کی ا دائیگیوں کے لیے 21 ارب ڈالر چاہییں۔ معاشی لحاظ سے مستحکم ملک ایک طرف ، کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثاثوں کی مالیت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سے کئی زیادہ ہے،حال میں سوشل میڈیا ایپ ،ٹوئٹر کو ایلن مسک نے 44 ارب ڈالر میں خریدا۔

اس وقت چین 3322 ارب ڈالر کے ذخائر کیساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے،جاپان کے پاس 1259 ارب ڈالر، سوئزرلینڈ کے پاس 1033 ارب ڈالر، بھارت کے پاس 569 ارب ڈالر، تائیوان 548 ارب ڈالر، ہانگ کانگ کے پاس 478 ارب ڈالر، روس 463 ارب ڈالر، جنوبی کوریا 437 ارب ڈالر، سعودی عرب کے پاس 429 ارب ڈالر جبکہ سنگاپور کے پاس 407 ارب سے زائد کے زر مبادلہ کیے ذخائرہیں۔ بنگلہ دیش جو 1971 تک سیلابوں اور غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا، آج اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 46 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔17 کروڑ آبادی کے ملک بنگلہ دیش کی کرنسی کی طاقت پاکستانی روپے کے مقابلے میں دگنی ہے، اس وقت ایک ڈالر 95 ٹکہ کے برابر ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں ڈالر215 روپے کا ہو چکاہے ۔1971 میں مشرقی پاکستان کے مقابلے میں مغربی پاکستان 70 فیصد امیر تھا لیکن آج بنگلہ دیش پاکستان سے 45 فیصد زیادہ امیر ہے۔ بنگلہ دیش میں فی کیس آمدن 1968 ڈالر جبکہ پاکستان میں 1193 ڈالر ہے ، بنگلہ دیش کی برآمدات 41 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی صرف 25 ارب ڈالر ہیں۔ بنگلہ دیش اس وقت تیزی ترقی کرتی ہوئی معیشیوں میں شامل ہے اور اس دوڑ میں اس نے پاکستان اور بھارت دونوں کو پیچھے چھوڑ دیاہے اور 6.7 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے جبکہ پاکستان قرضوں کے چنگل میں بری طرح سے پھنس چکاہے ، پاکستان پر اس وقت صرف بیرونی قرضوں کا بوجھ 122 ارب 20 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکاہے جبکہ مجموعی ملکی اور غیر ملکی قرض 53 ہزار ارب روپے سے زائد کاہے ۔

 پاکستان کے ڈالرز کے حصول کے بڑے ذرائع برآمدات، غیرملکی سرمایہ کاری ، سمندرپار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر اور عالمی مارکیٹ میں اسکوک اور یورو بانڈز کی فروخت ہے جبکہ تین بڑی درآمدات جن پر ڈالر خرچ ہوتے ہیں ان میں پٹرولیم مصنوعات ، خوردنی تیل اور مشینری کی درآمد ہے۔پاکستان کی سالانہ در آمدات 72 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔پاکستان پٹرولیم مصنوعات کا سالانہ صرف 20 فیصد پیدا کرتاہے جبکہ 80 فیصد درآمد پر سالانہ 16 ارب ڈالر سے زائد خرچ ہوتے ہیں ۔ ٹیکسٹائل سمیت مختلف شعبوں کوسالانہ اوسطاً 1600 ارب روپے کی سبسڈیز اور ٹیکس مراعات دی جاتی ہے جبکہ ٹیکسائل اور گارمنٹس کی اوسطاً برآمدات صرف 15 سے 16 ارب ڈالر کے درمیان ہیں۔

 دوسری جانب ایک زرعی ملک ہونے کے باجود رواں مالی سال پاکستان کی اشیائے خور و نوش کی درآمدات میں 22.31 فیصد اضافہ ہوا اور پہلے 11 ماہ میں1476 ارب روپے سے زائد کی کھانے پینے کی اشیاء درآمد کی گئیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا مئی 2022 تک خوردنی تیل کی درآمد 56.1 فیصد اضافے سے597 ارب23 کروڑ روپے رہیں جن کا حجم گزشتہ سال اسی عرصے میں 382ارب 60 کروڑ روپے تھا۔ پاکستان پام آئل کا صرف 6 فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ انڈونیشیا اس وقت پام آئل برآمد کرنے والا سب سے بڑ املک ہے اور اس کی پام آئل کی برآمدات سالانہ 18 ارب ڈالرہیں۔چائے کی درآمدات18.24فیصد اضافے سے101ارب73کروڑ روپے رہیں جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 86 ارب روپے تھی۔ پاکستان چائے کا صرف 4 فیصد پیدا کرتا ہے اور 15 ممالک سے سالانہ 3 کروڑ ٹن چائے درآمدکرتاہے ۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان رواں سال چینی کی درآمد 55.21فیصداضافے سے32ارب 31کروڑ70 لاکھ روپے رہی جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 20ارب82 کروڑ 20 لاکھ روپے تھی۔ اسی دوران 138ارب51 کروڑ10لاکھ روپے کی گندم درآمد کی گئی جو گزشتہ سال 157 ارب78 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی ۔ دالوں کی درآمد 98ارب24 کروڑ 80 لاکھ روپے ،خشک میوہ جات کی 10ارب86 کروڑ 50 لاکھ روپے جبکہ شیر خوار بچوں کی دودھ کی درآمد 26ارب47 کروڑ 30 لاکھ روپے رہی ۔ یوں صرف ان چند اشیاء کی درآمد پر 11 ماہ میں 7 ارب 20 کروڑ ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔

 اس ساری صورتحال میں اب صرف اور صرف ایک راستہ باقی بچا ہے کہ سیاستدان ہوش کے ناخن لیں، اشاروں پر ناچنے کے بجائے ملک کے بہترین معاشی ماہرین کو ایک میز پر بٹھائیں ، بیرون ملک سے بھی معاشی ماہرین بلائے جائیں اور کم سے کم آئندہ 15 سال کے لیے میثاق معیشیت پر دستخط کریں ، تحریک انصاف حکومت میں آئے ،پیپلزپارٹی ہویا نون لیگ ، میثاق معیشیت کیساتھ کوئی نہ چھیڑ سکے اور طے کردہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے ۔تمام تر توجہ برآمدات بڑھانے پر مرکوز کی جائے اور سیکیورٹی کے نام پر آئی ٹی سیکٹر پر عائد غیر اعلانیہ پابندیاں ختم کرتے ہوئے نوجوانوں کے ہاتھ کھولے جائیں تاکہ وہ بھی فیس بک، واٹس ایپ اور ٹوئٹر جیسی ایپس بنا سکیں۔ ساری دنیا آئی ٹی کے شعبے سے منسلک نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لیکن ہمارے سیکورٹی خدشات ہی ختم نہیں ہوتے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی اگر اندازہ ہوتا کہ یہ ایٹم بم پاکستان کواتنا مہنگا پڑے گا تو شائد وہ یہ غلطی نہ کرتے ۔دالیں، گندم ، چینی ،خوردنی تیل ایسی اجناس ہیں کہ اگر ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے تو تین سے چار مہینے میں ایک فصل تیا رہونے پر ان سے جان چھوڑائی جا سکتی ہے یا ان کی در آمد میں فوری 50 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ملک میں رواں سال ریکارڈ 1 کروڑ 5 لاکھ ٹن مکئی پید ا ہوئی لیکن اس سے کارن آئل حاصل نہیں کیا جا سکا۔

 ہمیں سبسڈیز کے کلچر سے جان چھوڑانی ہوگی جس کا فائدہ صرف مافیا زکوہوتا ہے ۔ ایسی اشیاء پر سبسڈی مکمل ختم کر دی جائے جو سستی ہونے پر افغانستان سمیت دیگر ممالک کو اسمگل ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔ حال ہی میں یوریا پر سبسڈی دی گئی تو ساری یوریا کھاد اسمگل کردی گئی ۔ اس کے برعکس بھارت اور بنگلہ دیش نے بجلی سستی کی جو چوری ہو سکتی ہے نہ اسمگل ،اس ایک اقدام سےپیداواری لاگت میں نمایاں کمی ہوئی جس کے صنعتوں کو فروغ ملا اور پاکستان سے بھی سرمایہ کاروں نے بنگلہ دیش کا رخ کرلیا۔ بنگلہ دیش کی تیزی سے ابھرتی معیشیت کو اس وقت ایک کیس اسٹدی کے طور پر لیا جارہا ہے ۔ سوچنا یہ ہے بنگلہ دیش کے پاس ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں۔

 

75 سال اور خاص کر گزشتہ 30 سال کے ہمارے لچھن دیکھ کر اب ہمارے آزمودہ دوستوں نے بھی ہماری مزید مدد سے صاف انکار کردیاہے، ایسے میں ہم امریکہ کوگالی دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ ہم اپنا پیدا کر کے کھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ آئی ایم ایف صرف آئی ایم ایف نہیں، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی فنڈنگ بھی آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط ہے۔یہ ادارے ہماری مدد کو نہ آئے تو پھر بیل آوٹ پیکج کے لیے کوئی اور ہی آئے گا اور اس کی قیمت پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے ،بجلی مہنگی کرنے اور سبسڈیز ختم کرنے سے کئی زیادہ ہوگی ۔

Comments are closed.