’’تمام پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں،نئی افغان صورتحال کو نئے تناظر میں دیکھنا چاہیے‘‘

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، نئی افغان صورت حال کو نئے تناظر سے دیکھا جانا چاہیئے، کیونکہ افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست مفاد ہے۔

افغانستان کی صورتحال پر وزارتِ خارجہ میں علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس ہوئی، پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی ورچوئل کانفرنس میں چین، ازبکستان، ترکمانستان ،تاجکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ہمارے خطے کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ غیرمتوقع اور اچانک وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات سے قطع نظر اہمیت اس امر کی ہے کہ دہائیوں سے جاری خون خرابہ نہیں ہوا۔ طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے۔اس سب کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے۔تاہم ایک بات یقینی ہے کہ ہم سب افغانستان میں تبدیل شدہ حقیقت کے ساتھ تگ ودو میں مصروف عمل ہیں۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے، امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے  نئے تناظر کو دیکھا جائے، ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق انداز فکر اپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ ہماری کوششوں کا بنیادی محور ومرکز افغان عوام کی فلاح وبہبود اور بہتری ہونا چاہیے جو چالیس سال سے زائد عرصہ پر محیط تنازعے اور عدم استحکام سے بے پناہ متاثر ہوئے ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات کے تمام چھ ہمسایہ ممالک کے لئے واضح مضمرات کے تناظر میں ہم نے قریبی رابطوں اور اشتراک پراتفاق کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ہماری ہونے والی مشاورت سے درج ذیل امور سامنے آئے ہیں جن پر بدلتی صورتحال میں مشترک سوچ درکار ہے؛سرحدوں کے ساتھ سلامتی کی صورتحال، افغان سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا، مہاجرین کی نئی لہر کے آنے کا امکان، منشیات اور کثیرالقومی جرائم کی روک تھام، انتہا پسند عناصر کے پھیلاو کے انسداد، کورونا وبا سے متعلق مشکلات ومسائل، خطے کو جوڑنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو اس کے بے پناہ ثمرات ہیں جن میں محفوظ سرحدیں، افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ ، افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے امکانات، معاشی استحکام اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری، خطے کو جوڑنے کے منصوبہ جات کو تعبیر دینا ، علاقائی معاشی یکجائی میں اضافہ شامل ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پرامن، مستحکم، خوش حال اور باہم ایک دوسرے سے جڑے خطے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی سے نکلے اور اپنی بھرپور صلاحیت کو بروئے کار لائے۔ ہماری دانست میں کئی کلیدی نکات اور ترجیحات ہیں جو اس سمت میں ہماری کوششوں میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں، اول، ہمیں افغان عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنا چاہیے۔دوم، ہمیں ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا۔سوم، ہمیں زور دینا ہوگا کہ افغان مسئلے کا افغان حل ہی ہونا چاہئے۔ چہارم، ہمیں واضح کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔پنجم، ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا۔

 انہوں نے کہا کہ حالیہ پیش رفت کے تناظر میں کلیدی ترجیحات یہ شامل ہیں کہ انسانی نوعیت کا بحران جنم نہ لے جس سے افغانوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں۔ اسی قدر یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔اگر انسانی نوعیت کے بحران کو جنم لینے سے روکا جائے اور معاشی استحکام کو یقینی بنالیا جائے تو امن کی بنیاد مستحکم ہوسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر مہاجرین کی یلغار سے بچا جاسکتا ہے۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ عالمی برادری خاص طورپر اس کلیدی ونازک مرحلے پر اپنے رابطے برقرار رکھے۔ سفارتی اور عالمی موجودگی کی تجدید سے افغان عوام کو ایک نیا یقین واعتماد میسر آئے گا۔ اقوام متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی۔مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکمل انحطاط سے بچانے اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں کلیدی ہوگی۔

وزیر خارجہ نے تجویز پیش کی کہ ہمسایہ ممالک کے اس اہم پلیٹ فارم کو مستقل اور باضابطہ مشاورتی نظام میں بدل دیاجائے اور مستقبل میں افغانستان کو اس میں مدعو کرنے پر بھی سوچا جاسکتا ہے۔ افغانستان کی اس میں شمولیت سے فورم کے موثر ہونے اور افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے ہمارے مشترکہ مقاصد پر پیش رفت کو تقویت ملے گی۔افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست مفاد ہے۔عالمی برادری کے لئے ہماری مشترکہ آواز پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے پیغام کو تقویت دے گی جو نہ صرف داخلی طورپر پرامن ہو بلکہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی امن وآشتی کا حامل ہو۔

Comments are closed.