شاہینو۔۔! مایوسی چھوڑو،ورلڈکپ میں حساب چکتا کرو

تحریر: طیب خان، اسلام آباد

متحدہ عرب امارات میں آئندہ ماہ آئی سی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کا میلہ سجنے جا رہا ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی تیاریاں تو عروج پر ہیں ہی۔لیکن اس سے پہلے پاکستان اورکرکٹ شائقین کو کافی مایوسی بھی ہوئی ہے۔پہلے نیوزی لینڈ اور پھر انگلینڈ نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا۔دونوں ٹیموں کے انکارنے کھیل کوایک بارپھرسیاست زدہ کردیا ہے۔بظاہرتونیوزی لینڈ اورانگلینڈ کرکٹ بورڈ نے پاکستان میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پرکھیلنے سے انکار کیا ہے۔تاہم ان کےلیے کیے گئے شاندارسیکیورٹی انتظامات ۔پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی قابلیت کے باوجود دونوں ٹیموں کے انکار کی وجہ کسی سازش کا پیش خیمہ لگتی ہے۔خیر یہ بات تو ہوئی سو ہوئی۔جس نے نہیں آنا وہ نہ آئے بلا تو گھومتا رہے گا اور پاکستان کرکٹ کے میدان میں چمکے گا بھی۔وہ ملک کا میدان ہویا بیرون ملک۔

پاکستان کےلیے ایسی مایوس کن خبریں کوئی نئی نہیں ہیں۔کھیل کے باہراوراندرسے کئی بارہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔سال 2007 قومی ٹیم 50 اوور کے ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔پہلے ہی رائونڈ میں میزبانی ویسٹ انڈیز اورآئرلینڈ سے شکست کھا کر گروپ رائونڈ کے مرحلے میں ہی ایونٹ سے باہر ہو گئی۔اس وقت کے کپتان انضام الحق کا یہ آخری ورلڈ کپ تھا۔آئرلینڈ سے ہارنے کے بعد کوچ باب وولمر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔جس کا صدمہ پوری قوم کو ہوا۔باب وولمر پاکستان کرکٹ میں رچ بس گئے تھے۔ان کی سرپرستی میں پاکستان نے بھارت کو بھارت میں۔سری لنکا کوسری لنکا میں اور انگلینڈ کو 2005 میں دورہ پاکستان کے موقع پر شکست دی۔

انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد سابق کپتان یونس کو لیمٹڈ اوورز کی آفر کی گئی۔جس پرانہوں نے اس وقت انکار کیا تو آل رائونڈر شعیب ملک کو محدود مدت کےلئے کپتان مقرر کیا گیا۔سال 2007 میں ستمبر میں ہونے والا پہلے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں شعیب ملک کی کپتانی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ میں ہونے والے ایونٹ میں شرکت کی۔ورلڈکپ کی اسکواڈ میں شاہد آفریدی۔یونس خان۔عمران نذیر۔محمد حفیظ۔فواد عالم۔مصباح الحق ۔یاسرعرفات۔سہیل تنویر۔سلمان بٹ۔عمر گل اور محمد آصف شامل تھے۔

اس اسکواڈ میں شعیب اختر بھی شامل تھے لیکن انہیں محمد آصف کے ساتھ لڑائی کرنے پروطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔محمد یوسف کو ٹی ٹونٹی کرکٹ کے لئے فائدہ مند بلے باز نہ قرار دینے پران کی جگہ مصباح الحق کو اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھا۔یہ مصباح الحق کی کرکٹ میں 5 سال بعد واپسی تھی۔ایونٹ کے افتتاح ویسٹ انڈیز اور میزبان ٹیم جنوبی افریقہ کے درمیان میچ سے ہوا۔جس میں ویسٹ انڈیز کے بلے باز کرس گیل نے 117 رنز کی اننگز کھیل کر ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی تاریخ میں پہلی سنچری اپنے نام کی۔لیکن ان کی یہ سنچری ویسٹ انڈیز کے کسی کام نہ آسکی۔میزبان ٹیم نے مطلوبہ ہدف 17 ویں اوور میں حاصل کر لیا۔

ویسٹ انڈیز کو گروپ کے دوسرے میچ میں بنگلہ دیش نے شکست دے کر سپر ایٹ کی دوڑ سے بھی باہر کر دیا تھا۔ پاکستان کا گروپ اسٹیجز میں پہلا میچ روایتی حریف بھارت کے ساتھ ہوا۔جس میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بھارت کے 141 رنز کے ہدف پر پاکستان نے بھی 141 رنز بنائے لیکن میچ ٹائی ہوگیا۔بعد میں میچ کا فیصلہ بال آئوٹ پر ہوا۔پاکستان کی جانب سے ایک دفعہ بھی وکٹ کو بال نہ ہٹ کر پائی۔اس طرح بھارت نے یہ میچ جیت کر سپر ایٹ کے مرحلے کے لئے کوالیفائی کیا۔

اس سے پہلے بھارت اور سکاٹ لینڈ کا میچ بارش کی نظر ہو گیا تھا۔جس کے لئے بھارت کو پاکستان کے خلاف میچ جیتنا بھی ضروری تھا۔سپرایٹ مرحلے میں پاکستان نے اپنے پہلے میچ میں سری لنکا 33 رنز سے شکست دی اوریونس خان کو 51 رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔سپرایٹ رائونڈ کے دوسرے میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 6 وکٹوں سے شکست دی اور مصباح الحق کو مین آف دی میچ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس میچ کے بعد پاکستان نے ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کر لی تھی۔

مصباح الحق سے جب صحافی نے پریس کانفرنس کے دوران محمد یوسف کے متبادل کے طور پر ٹیم میں شامل ہونے پر سوال کیا تو مصباح الحق نے کہا تھا کہ وہ میرے آئیڈیل ہیں۔میں ان کی جگہ نہیں لے سکتا تھا۔ایک سال قبل محمد یوسف نے ٹیسٹ کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان سر ویو رچرڈز کا 30 سالہ ریکارڈ بھی توڑا تھا۔پاکستان نے اپنے سپرایٹ کے تیسرے میچ میں بنگلہ دیش کو 4 وکٹوں سے شکست دی اورآسٹریلیا نے سری لنکا کو 10 وکٹوں سے شکست دے کرسیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔

ادھر دوسری جانب نیوزی لینڈ اور بھارت نے سیمی فائنل کے راونڈ کے لئے کوالیفائی کیا۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلا سیمی فائنل کھیلا گیا۔جس میں نیوزی لینڈ کو 6 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔عمران نذیر نے اس میچ میں 59 رنز کی اننگز کھیلی۔جبکہ عمر گل کو 3 وکٹیں اڑانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔اس وقت کے آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم ایک اور ورلڈکپ کے پیاسے ہیں۔

دوسرے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بھارت کے 188 رنز کے ہدف میں 7 وکٹوں پر 173 رنز ہی بنا سکی۔بھارت کی جانب سے یووراج سنگھ نے 30 بالز پر 70 رنز بنا کر بھارت کو فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اوراس طرح بھارت اور پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے ایڈیشن کے فائنل میں پہنچ گئے۔فائنل میں بھارتی اوپننگ بلے باز ورندرسہواگ کو ڈراپ کرکے یوسف پٹھان کو موقع دیا گیا۔فائنل میں بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 157 رنز کا ہدف دیا۔گوتم گھمبیر نے 77 رنز کی اننگز کھیلی۔

پاکستان کی جانب عمران نذیر نے اچھی شروعات کا آغاز کیا لیکن یونس خان کی ایک غلط کی وجہ سے وہ رن آئوٹ ہو گئے اور یوں 3 اوورز میں 45 کے مجموعی رنز پر پاکستان کی 2 وکٹیں گر گئیں۔اگلے ہی اوور میں یونس خان بھی دائرے کے اندر کیچ دے کر چلتے بنے۔کپتان شعیب ملک بھی کریز پر زیادہ دیر ٹک نہ سکے اور پویلین لوٹ گئے۔یاسر عرافات نے مصباح الحق کے ساتھ 30 رنز کی پارٹنر شپ کی۔لیکن وہ بھی عرفان پٹھان کی گیند پر آئوٹ ہوگئے اور شاہد آفریدی بھی اسی اوور میں پہلی گیند پر روایتی انداز اپناتے ہوئے پویلین لوٹ گئے۔

مصباح الحق نے ہربجھن سنگھ کو اوور میں 4 چھکے لگا کرمیچ پر پاکستان کی گرفت حاصل کی۔تو دوسری طرف سہیل تنویر نے بھارتی بائولر سری سانتھ نے لگاتار دو چھکے لگائے۔لیکن اگلی ہی گیند پر وہ بھی کلین بولڈ ہو گئے اورآخری کھلاڑی محمد آصف نے پہلی گیند پرچوکا لگا کر ٹیم کو ہدف کے قریب لے آئے۔بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے آخری اوور جوگندرشرما کو دیا۔جنہوں نے پہلی گیند پر فل ٹال پر بال مصباح لحق کے گیند پر چھکا کھایا۔لیکن اگلی ہی بال پر مصباح الحق نے جب پیدل سکوپ کھیلی تو بال ہوا میں گئی اور سرکل میں کھڑے بھارتی فیلڈرسری سانتھ نے ان کا کیچ حاصل کر لیا۔یوں بھارت پہلے آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کا چیمپیئن بنا گیا۔بھارتی بائولرعرفان پٹھان کو میچ کا بہترین جبکہ شاہد آفریدی کو ٹورنمنٹ میں آل رائونڈ کارکردگی دکھانے پر بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔

اب میگا ایونٹ اکتوبر میں شروع ہونے جارہا ہے۔جہاں نیوزی لینڈ اورانگلینڈ کے دورہ پاکستان سے انکار کے بعد پاکستان کو بہتروارم اپ کا موقع نہ مل سکا وہیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔جو کھیل ہم یہاں نہیں دکھا سکے وہ متحدہ عرب امارات کی زمین پردکھا کرثابت کرسکتے ہیں کہ کرکٹ ہم سے ہے اورہم کرکٹ سے۔ویسے بھی متحدہ عرب امارات ہمارا ہی دوسرا گھر ہے۔وہاں موجود لاکھوں پاکستانی قومی ٹیم کوسپورٹ کرنے کےلیے موجود رہیں گے۔توٹیم پاکستان مایوسی چھوڑوں اور حساب چکتا کرنے کی تیاری کرو۔

Comments are closed.