پاکستان نے بھارت اور امریکا کے درمیان حال ہی میں ہونے والے دفاعی معاہدے پر فوری ردعمل دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے جنوبی ایشیا پر ممکنہ اثرات کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس وقت تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔
دفاعی معاہدے پر پاکستان کی احتیاطی پالیسی
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان طے پانے والا دفاعی معاہدہ ایک تازہ پیش رفت ہے، جسے آج صبح نافذ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان امن، سلامتی اور خطے میں استحکام کے تناظر میں اس معاہدے کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی فریم ورک
واضح رہے کہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے جمعہ کے روز تصدیق کی تھی کہ امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد دفاعی تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی شراکت میں مزید اضافہ کرنا بتایا جا رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع کا بیان
خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق پیٹ ہیگسیتھ نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم “ایکس” پر اپنے پیغام میں کہا کہ “ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے، اور یہ معاہدہ خطے میں استحکام اور توازن کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔”
کوالالمپور میں ملاقات اور علاقائی تناظر
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق معاہدے پر دستخط کوالالمپور میں ہونے والی آسيان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ-پلس کے موقع پر ہوئے، جو ہفتے سے شروع ہو رہی ہے۔ اس موقع پر امریکی وزیر دفاع نے بھارتی ہم منصب راجناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “یہ دنیا کی اہم ترین دفاعی شراکت داریوں میں سے ایک ہے، جو باہمی اعتماد اور ایک محفوظ بحرِ ہند-بحرالکاہل خطے کے عزم پر قائم ہے۔”
پاکستان کا مؤقف اور علاقائی استحکام کا چیلنج
پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق کسی بھی بڑی دفاعی پیش رفت کے اثرات کو سمجھے بغیر فوری ردِعمل دینا درست نہیں ہوگا۔ اسلام آباد خطے میں طاقت کے توازن اور امن و استحکام کے تسلسل کو اہم سمجھتا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک حرکیات پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے، خاص طور پر پاک-بھارت تعلقات کے تناظر میں۔
Comments are closed.