کراچی — وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کراچی میں پری بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت کا مقصد زیادہ سے زیادہ کاروباری سرگرمیوں سے خود کو علیحدہ کرکے معیشت کو نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 24 کروڑ آبادی والے ملک کے لیے مستحکم ٹیکس ریونیو کا نظام ناگزیر ہے۔
وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ کاروباری طبقہ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہے لیکن وہ ٹیکس اتھارٹی کے رویے سے ناخوش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت ڈیجیٹل ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نظام میں انسانی مداخلت کو کم کر کے شفافیت کو فروغ دینا چاہتی ہے تاکہ ہراسمنٹ کا خاتمہ ہو۔
محمد اورنگزیب نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس سے استثنیٰ کا تصور ختم ہو چکا ہے، مینوفیکچرنگ اور برآمدات کرنے والے تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا۔ انہوں نے تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس نظام کو آسان بنانے کی بات کی، تاکہ عام شہریوں کو ٹیکس ایڈوائزرز کی ضرورت نہ پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس فارم کو سادہ اور آٹوفل خانوں پر مشتمل بنایا جائے گا، تاکہ سہولت میں اضافہ ہو۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم درست سمت میں جا رہے ہیں اور ٹیکس اصلاحات کے سلسلے میں مختلف تجارتی تنظیموں کی سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنانے کے لیے جنوری میں ہی دعوت دی گئی تھی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے، اس لیے بجٹ میں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں، اس کا مکمل تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس پالیسی آفس کو ایف بی آر سے علیحدہ کرنے کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے، جو اب وزارت خزانہ کو رپورٹ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر صرف محصولات کے حصول پر توجہ دے گا جبکہ پالیسی سازی ٹیکس پالیسی آفس کے دائرہ اختیار میں آ جائے گی۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ بجٹ کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پالیسی سازی کو آزاد، شفاف اور طویل المدتی بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔
Comments are closed.