وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر 8 مسلم ممالک کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم کو شامل نہ کیا گیا تو پاکستان امریکا کے غزہ امن منصوبے کو قبول نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ امریکا نے جاری کیا ہے، جبکہ پاکستان نے اپنی تجاویز الگ بھیجی ہیں اور انہی پر اصرار کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے دعوے اور پاکستان کی پوزیشن
وزیر خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے اعلان کو امریکا کی طرف سے اعلان سمجھا جائے۔ انہوں نے یہ تاثر رد کیا کہ پاکستان اس منصوبے کا حصہ ہے، حالانکہ اس سے قبل ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر دونوں اس منصوبے کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اپنی پالیسی پر قائم ہے اور مشترکہ مسلم مؤقف کو ترجیح دے گا۔
فلسطین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی تجویز
پریس کانفرنس میں اسحٰق ڈار نے بتایا کہ ٹرمپ کے منصوبے میں فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا، جو زیادہ تر فلسطینیوں پر مشتمل ہوگا۔ تاہم بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) میں پاکستان کی شمولیت پر وہ محتاط رہے۔
بین الاقوامی فورس اور انڈونیشیا کی پیشکش
ان کا کہنا تھا کہ زمین پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں گے جنہیں ایک علیحدہ افواج کی مدد حاصل ہوگی۔ انڈونیشیا نے اس مقصد کے لیے 20 ہزار فوجی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی قیادت بھی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔ یہ فورس صرف غزہ کے لیے مخصوص ہوگی اور اس کی تعیناتی کا انتظام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دستاویزی طور پر درج ہوگا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کا کردار
وزیر خارجہ نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کا ایک بڑا مقصد امت مسلمہ کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کی مشکلات ختم کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ پاکستان سمیت 8 ممالک نے صدر ٹرمپ کے سامنے فعال انداز میں یہ معاملہ اٹھایا۔
امن منصوبے کے نکات
اسحٰق ڈار کے مطابق ٹرمپ کے سامنے جو نکات رکھے گئے ان میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ شامل تھا۔ انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی روکنے اور بے گھر افراد کی واپسی کے انتظام کا مطالبہ کیا گیا۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوششوں کو روکنے پر بھی زور دیا گیا۔
مسلم ممالک کی مشاورت
انہوں نے بتایا کہ سعودی وزیر خارجہ نے انہیں پیغام دیا کہ 5 ممالک پہلے ہی مشترکہ اعلامیے پر متفق ہوچکے ہیں اور پاکستان کی رضامندی بھی اہم ہے۔ اس سلسلے میں انڈونیشیا اور یو اے ای سے بھی رابطے کیے گئے۔ اسحٰق ڈار نے کچھ ترامیم تجویز کیں، جس کے بعد نظرثانی شدہ مسودہ تیار ہوا اور بالآخر مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔
دو ریاستی حل پر موقف
دو ریاستی حل کے بارے میں سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور باقی 7 ممالک بھی اسی مؤقف پر قائم ہیں۔
Comments are closed.