قومی اسمبلی میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی منظوری: صحافتی تنظیموں کا شدید ردعمل

قومی اسمبلی میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی منظوری: صحافتی تنظیموں کا شدید ردعمل

قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا، تاہم صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے اس اقدام کو آزادی صحافت پر قدغن قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔

صحافتی تنظیموں کا ردعمل

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) اور دیگر صحافتی تنظیموں نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اسے آئین کی روح کے خلاف اور آزادی اظہار رائے کو دبانے کی سازش قرار دیا۔ پی ایف یو جے کے جنرل سیکریٹری اور لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہا کہ ترامیم میڈیا اور صحافتی برادری کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو میڈیا انڈسٹری سے دھوکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صحافتی برادری ہر قیمت پر آزادی صحافت کا تحفظ کرے گی۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اعلامیہ

جوائنٹ ایکشن کمیٹی، جس میں PFUJ، APNS، CPNE، ایمنڈ، اور PBA شامل ہیں، نے کہا کہ پیکا ایکٹ کی ترامیم صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی گئی ہیں اور ترامیم کا مسودہ کسی تنظیم کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے ان ترامیم کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

پیکا ایکٹ میں ترامیم کی تفصیلات

نئی ترامیم کے تحت ایک نئی شق “ون اے” شامل کی گئی ہے، جس کے تحت “سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی” قائم کی جائے گی۔ یہ اتھارٹی اسلام آباد میں مرکزی دفتر کے ساتھ ساتھ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کرے گی۔ اتھارٹی کا مقصد سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کا تحفظ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔

دیگر اہم بل کی منظوری

قومی اسمبلی نے “ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل” بھی منظور کر لیا۔ یہ بل وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ نے پیش کیا۔ اس بل کا مقصد پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت کی جانب گامزن کرنا اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کو فروغ دینا ہے۔

نتیجہ

پیکا ایکٹ کی ترامیم اور سوشل میڈیا کے لیے نئی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام پر صحافتی تنظیموں کی جانب سے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم آزادی صحافت اور اظہار رائے کے آئینی حقوق کے خلاف ہیں۔

دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ ان اقدامات کا مقصد سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، صحافتی تنظیموں نے ترامیم واپس لینے کے لیے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

Comments are closed.