پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند اور سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سماعت کے دوران پیش ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے دورانِ سماعت دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین نے قومی اسمبلی میں 86، پنجاب اسمبلی میں107، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 90، سندھ اسمبلی میں 9 اور بلوچستان میں ایک رکن نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 106 (تھری) (ایم) کے تحت سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ’اعتراض یہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم نہیں کی اس لیے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں قبضہ گروپس کو دی گئیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ قبضہ گروپس نہ کہیں ان کو نشستیں الیکشن کمیشن نے دی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے مؤقف اختیار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دیگر ہائی کورٹس میں بھی دائر کی ہیں اور یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں جو کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تمام درخواستوں میں ایک ہی درخواست گزار ہے۔ درخواستوں میں ایک ہی پیٹرن کو فالو کیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی لارجر بینچ کے لیے استدعا کی گئی ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج کر دی۔
Comments are closed.