ریاستی نظام ، قوانین سے مافیا کا کھلواڑ

ریاست کا نظام مافیاز کے ہاتھوں مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، حکومتیں بنانا،گرانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تو سرکاری اداروں کے سربراہان ان کے درباروں میں ہاتھ باندھے قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ ایسی شخصیات نے ہر دور میں پیسے کے بل بوتے پر ریاستی قوانین کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھا ہے۔

اس کی تازہ مثال حکمران جماعت کے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی علیم خان کی جانب سے ملک کا بڑا میڈیا ہاؤس سماء ٹی وی خریدنا ہے، بعض افراد کے ذہن میں یہ سوال ضرور آئے گا کہ ملک کی دیگر مالدار شخصیات کی طرح پراپرٹی ٹائیکون علیم خان نے ایک نیوز چینل خرید کر کون سا جرم کیا ہے ؟

جس کا جواب ہے کہ جس ٹی وی چینل کو بیچا اور خریدا گیا اس کی سالانہ لائسنس فیس اور سالانہ ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی مد میں کروڑوں روپے کے واجبات باقی ہیں، قانون کے مطابق سرکاری واجبات کی ادائیگی کے بغیر چینل بیچا نہیں جا سکتا تاہم حکمران جماعت سے تعلق اور مبینہ طور پر وفاقی وزراء کی جانب سے دباؤ کے بعد پیمرا نے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چینل کے جملہ حقوق نادہندہ مالکان سے ملزم شخص کی کمپنی کے نام منتقل کر دیئے ہیں۔

عبدالعلیم خان کی جانب سے اس وقت نیوز چینل خریدنے کا اقدام بظاہر اپنے بزنس کیلئے شیلڈ تیار کرنا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ میڈیا کے لئے انتہائی مشکل حالات کے دوران ایک ایسا چینل خریدنا جو کہ کروڑوں روپے کا نادہندہ بھی ہے وہ ملک میں صحافت کے فروغ کے لئے تو ہرگز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے درپردہ مقاصد پاکستان کے چند دیگر میڈیا ہاؤسز کی طرح اپنے اچھے برے کام کو تحفظ دینا اور اداروں کو میڈیا کور کے ذریعے اپنے خلاف کارروائی سے روکنا ہوسکتا ہے۔

کیونکہ کون نہیں جانتا کہ علیم خان اوران کی کمپنی کے خلاف اسلام آباد کے اندر عوامی، سرکار زمین پر قبضے، ماحولیات کونقصان پہنچانے اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے الزامات کے تحت مقدمات زیر التواء ہیں، پراپرٹی ٹائیکون علیم خان نے اسلام آباد کے زون فور میں ہاؤسنگ سوسائٹی پارک ویو سٹی کا منصوبہ 2014 میں منظوری کے بغیرغیرقانونی طور پرشروع کیا، جس کے چار سال بعد یعنی 2018 میں وفاقی ترقیاتی ادارے سے اس منصوبے کا این او سی حاصل کیا گیا۔

سال 2019 میں مقامی افراد نے علیم خان کی سوسائٹی کیخلاف مقامی عدالتوں،سی ڈی اے میں درخواستیں دیں، کہ ان کی آبائی زمینوں پر قبضے، جنگلات اور پہاڑ کاٹ کر ماحولیات کو نقصان اور سرکاری اراضی ہتھیائی جا رہی ہے، معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے پہنچا تو دوران سماعت نہ صرف یہ انکشاف ہوا کہ علیم خان کی سوسائٹی کو حقائق چھپا کر خلاف ضابطہ این او سی جاری کیا گیا بلکہ مقامی افراد اور سرکار کی زمینوں پر قبضے، ماحول کو تباہ کرنے کی بھی تصدیق ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دو ستمبر 2021 کو 80 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پارک ویو سٹی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے این او سی ختم کرنے کا حکم دیا، سی ڈی اے کی جانب سے سرکاری زمین سے ہاؤسنگ سوسائٹی کو راستہ دینے کا اقدام اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے سی ڈی اے کو راستہ بند کر کے غیرقانونی تعمیرات مسمار کرنے کی ہدایت کی، ضلعی انتظامیہ کو شہریوں کی زمین کی نشاندہی کرکے قبضہ ختم کرانے کا حکم دیا جب کہ وفاقی کابینہ کو ماحول تباہ کرنے پر کارروائی عمل میں لانے کا کہا گیا۔

علیم خان کی جانب سے ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر کے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی جو تاحال منظور نہیں ہوئی، کئی ماہ سے مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہے، جب کہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں بننے والی غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹی نہ صرف کام جاری رکھے ہوئے بلکہ اس غیرقانونی رہائشی منصوبے کی مقامی اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے، اسلام آباد میں پارک ویو سٹی کے دیوہیکل بل بورڈز لگانے کی اجازت دینے والے اداروں کے پاس اس سوسائٹی کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔

تارکین وطن کی زمینوں پر قبضے ختم کروانے اور مافیاز کے خلاف مشن پرعمل پیرا وزیراعظم عمران خان کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ ان کے قریبی ساتھی اور پارٹی کے اہم لیڈر اپنی غیرقانونی سوسائٹی کے پلاٹس نہ صرف دھڑلے سے بیچ رہے بلکہ ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ اوورسیز پاکستانیز ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ علیم خان نے کاغذات میں پانچ سو کے قریب پلاٹس والی سوسائٹی ظاہر کی جب کہ اب تک عدالتی فیصلے کے مطابق غیرقانونی قرار دی گئی اس سوسائٹی کے ہزاروں پلاٹس بیچے جا چکے ہیں، جس میں سے ہر پلاٹ کروڑوں روپے مالیت کا ہے۔

یہ تمام تر تفصیلات سامنے رکھنے کا مقصد یہ کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے کوئی شہری کسی سیکٹر میں ٹھیلا، پتھارا لگا لے تو وفاقی ترقیاتی ادارہ اور ضلعی انتظامیہ قانون کی عمل داری کیلئے اسے نہ صرف ہٹا دیتا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کے لئے اس غریب کا سامان بھی بحق سرکار ضبط کر لیا جاتا ہے، پاکستان میں قوانین مکڑی کا وہ جالا ہیں جس میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں لیکن طاقت ور اسے توڑ کر نکل جاتے ہیں۔

Comments are closed.