اسلام آباد:سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو پریڈ گراونڈ ایچ نائن اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت دے دی ۔ عدالت نے حکومت کو پی ٹی آئی رہنماؤں و کارکنوں کے گھروں اور دفاتر پرچھاپے مارنے سے بھی روک دیا گیا۔ راستوں سے فوری رکاوٹیں ہٹانے کی تحریک انصاف کی استدعا مسترد کردی گئی۔ تحریک انصاف کی سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی ، عدالت نے حکومت اور اپوزیشن کو رات 10 بجے ملاقات کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو گزشتہ 48 گھنٹوں میں پکڑی جانے والی ٹرانسپورٹ بھی چھوڑنے کی بھی ہدایت کی۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی کیس ختم نہیں ہوا ، جمعرات کو بھی کیس پھر سنیں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان سے استفسار کیا کہ احتجاج کب ختم ہوگا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا احتجاج آج سے شروع ہوا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا یہ احتجاج لا محدود ہوگا؟بابر اعوان نے کہاکہ اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اس کا فیصلہ پارٹی لیڈر شپ کرے گی، سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو رات دس بجے ملاقات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی لانگ مارچ روکنے کے خلاف اسد عمر کی درخواست کی سماعت،سپریم کور ٹ کا چیف کمشنر اسلام آباد کو لانگ مارچ کے لئے مناسب جگہ فراہم کرنے اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان مذاکرت کا حکم دے دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی والے اپنا احتجاج کریں اور گھروں کو جائیں، حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ راستوں کی بندش ختم کرے گی، پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دئیے گئے ہیں،معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے پر ہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے، بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہا رہی ہے۔ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، میڈیا کو ریمارکس چلانے سے روکا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، میں بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ حکومت کو سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کیلئے درخواست دی تھی، اس پر کیا فیصلہ ہوا۔قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں،سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد ،ڈی سی اسلام آباد، آئی جی سیکریٹری داخلہ اور ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کرتے ہوئے تمام افسران سے صوتحال پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیا کہ لانگ مارچ کے لئے مناسب جگہ فراہم کی جائے اور اس جگہ تک رسائی کے لیے ٹریفک پلان ترتیب دیا جائے۔عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کی سرزنش بھی کی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آئی جی صاحب پولیس کے کارناموں کا وزن بہت زیادہ ہے، کیا آپ کو معلوم ہے آپ پہلے ہی کتنا وزن اٹھائے ہوئے ہیں، کنٹرول میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کریں۔عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور پولیس کو فوری طور پر پالیسی پر نظرثانی کی ہدایت بھی کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد ریاست کے ملازم ہیں، عوام اور وکلا کو حراساں نہ کیا جائے، احتجاج کرنے والے بھی آپ کے اپنے لوگ ہیں ، کچھ ہوا تو ذمہ داری ائی جی اسلام آباد پر ہوگی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پی ٹی آئی کے وکیل ہدایات لیکر انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں، سب بہاریں پاکستان کے ساتھ ہیں، سیاسی جماعتوں کے مفاد ہیں لیکن عوام اور ملک کے سامنے سیاسی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں، آپس کی لڑائیوں میں ملک کی بہاروں کو خزاں میں تبدیل نہ کریں، انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت سہہ پہر تک ملتوی کردی گئی۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو تحریک انصاف نے دھرنے کا دورانیہ عدالت کو بتانے سے معذرت کر لی۔ بابر اعوان نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے اس کو سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں، ہمارا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے اس پر اٹارنی جنرل سے بات نہیں کروں گا۔تحریک انصاف شاہراہ سرینگرگراؤنڈ کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج پر امن رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ عدالت نے تحریک انصاف کے مطالبات پر حکومت سے موقف طلب کرلیا۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے حکومت ،انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں بابر اعوان ،فیصل چوہدری،عامر کیانی اور علی اعوان شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم اور وزرا پرمشتمل کمیٹی تشکیل دینے کیلئے تیار ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فیض آباد یا موٹروے بند کرنے سے کام نہیں ہوگا، عدالت جو فیصلہ کریگی اس پر عمل کرائینگے اور بیان حلفی لینگے ، سپریم کورٹ نے شیلنگ فوری روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک گھنٹے میں کچھ نہیں ہوگا، اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے دیں، تحریک انصاف کو جہاں جے یو آئی نے جہاں دھرنا دیا وہاں اجازت دی جائے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کچھ دیر میں مذاکرات کیلئے وزراء کی ٹیم نامزد کرینگے، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ عدالت سے باہر حل ہو۔
Comments are closed.