پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے اعلان کیا ہے کہ صوبائی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی منظوری دے دی ہے، اور پابندی کی سمری وفاقی حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر تشدد اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ٹی ایل پی پر پابندی کا فیصلہ
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب کابینہ نے اتفاقِ رائے سے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دی ہے۔ ان کے مطابق مذہب کے نام پر تشدد اور فتنہ انگیزی ناقابلِ قبول ہے، اور کسی کو اپنی سوچ زبردستی دوسروں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات پر تشویش
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پاکستان میں کچھ عرصے سے انتہا پسندی اور سڑکوں پر احتجاج کی روایت زور پکڑ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مذہبی جماعت نے احتجاج کے نام پر خونی مظاہرہ کیا، حالانکہ غزہ میں جنگ بندی ہو چکی تھی، اور وزیراعظم شہباز شریف سمیت آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس عمل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ریاستی رٹ برقرار رکھنے کا عزم
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ریاست ایسے انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز عوامی فلاح کے منصوبے روزانہ کی بنیاد پر شروع کر رہی ہیں، جن میں کسان کارڈ کی تقسیم اور 90 ہزار گھروں کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے نہ ملک کے خیرخواہ ہیں نہ پنجاب کے۔
پولیس پر حملوں کی مذمت
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ حالیہ احتجاج میں پنجاب پولیس کے انسپکٹر کو 26 گولیاں ماری گئیں جبکہ 1600 سے زائد اہلکار زخمی اور 50 سے زیادہ مستقل طور پر معذور ہو چکے ہیں۔ پولیس کی 97 گاڑیاں مکمل تباہ اور دو کو آگ لگا دی گئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسے پرتشدد واقعات کو پرامن احتجاج کہا جا سکتا ہے؟
حکومت اور مذاکرات کا مؤقف
وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے مذکورہ جماعت سے مذاکرات کیے تھے، مگر ان میں فلسطین یا غزہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا بلکہ ذاتی مفادات کی باتیں سامنے آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام باشعور ہیں، تاجروں نے احتجاج کی کال مسترد کر دی اور پنجاب بھر کے بازار معمول کے مطابق کھلے ہیں۔
 
			 
						
Comments are closed.