پنجاب پولیس پر بچیوں کے اغوا اور جھوٹے مقدمات بنانے کا الزام،عدالت کا ایف آئی اے کو جے آئی ٹی بنانے کا حکم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جھوٹے مقدمات اور بچیوں کے اغوا میں ملوث پنجاب پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے خصوصی جے آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں خاتون وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔
عدالت کا سخت مؤقف
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے جھوٹے مقدمات کے معاملے پر سماعت کرتے ہوئے قرار دیا کہ پنجاب پولیس نے ایک خاتون اور اُس کی کم سن بچیوں کو گھر سے اٹھا کر تھانے میں بند کرکے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا، جو انتہائی افسوسناک اور ناقابلِ قبول ہے۔
سماعت کی کارروائی
مقدمہ اخراج کی درخواست کی سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی، ڈائریکٹر ایف آئی اے شہزاد بخاری اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محسن اختر نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو ہدایت کی کہ متاثرہ خاتون کا بیان قلمبند کرکے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم
عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ الزام براہِ راست پنجاب پولیس پر ہے، اس لیے پولیس خود تفتیش نہیں کر سکتی۔
اس مقصد کے لیے ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے کی سربراہی میں ایک خصوصی جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دینے کا حکم دیا گیا جو واقعے کی آزادانہ تفتیش کرے گی۔
عدالتی ریمارکس اور تنقید
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں خاتون وزیراعلیٰ ہیں مگر اُن کے زیرانتظام پولیس نے خواتین اور بچیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا۔
انہوں نے کہا کہ “یہ واقعہ صرف قانون شکنی نہیں بلکہ معاشرتی اقدار کی توہین ہے، چادر اور چار دیواری کو پامال کیا گیا۔”
پولیس کی صفائی اور عدالت کا ردعمل
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم بنا دی گئی ہے، تاہم درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے پولیس رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ کچھ نہیں کریں گے، صرف اپنے اہلکاروں کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔”
عدالت نے مؤقف سنا اور ہدایت دی کہ رپورٹ جمع ہونے کے بعد ایف آئی اے ہی تفتیش کو آگے بڑھائے۔
آئندہ کارروائی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کل دوپہر ایک بجے ایس ایس پی آپریشنز کے دفتر میں میٹنگ کرنے کا حکم دیا اور کیس کی مزید سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے لطیف کھوسہ کی گاڑیوں کی حوالگی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “یہ پراپرٹی کا حصہ ہیں، ابھی واپس نہیں کی جا سکتیں۔”
Comments are closed.