امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے قطر پر کیے گئے فضائی حملے سے “خوش نہیں” ہیں، جس میں حماس کے سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر وہ کل ایک تفصیلی بیان جاری کریں گے۔
پریس کانفرنس منسوخی اور ابتدائی ردِعمل
العربیہ چینل کی واشنگٹن بیورو چیف کے مطابق صدر ٹرمپ نے وہ پریس کانفرنس منسوخ کر دی جس میں صحافیوں کو قطر میں حماس کے دفتر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے سوالات پوچھنے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نے انہیں اطلاع دی کہ اسرائیل نے دوحہ میں حماس کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ فیصلہ براہِ راست اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کیا۔
اسرائیل اور امریکا کے مفادات پر اثرات
ٹرمپ نے کہا کہ قطر پر یک طرفہ بمباری نہ تو اسرائیل کے اور نہ ہی امریکا کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے فوری طور پر اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کو ہدایت کی کہ وہ قطری حکام کو متوقع حملے سے آگاہ کریں، لیکن بدقسمتی سے اطلاع وقت پر نہ پہنچ سکی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ امن کے لیے ایک موقع بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
قطر کو یقین دہانی
امریکی صدر نے قطر کے امیر اور وزیراعظم کو یقین دلایا کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو ہدایت دی کہ قطر کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کو مکمل کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں ٹرمپ نے کہا:
“قطر پر یک طرفہ بمباری، جو ایک خودمختار ریاست اور امریکا کی قریبی اتحادی ہے، اسرائیل یا امریکا کے مقاصد کی خدمت نہیں کرتی۔” تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “حماس کا خاتمہ، جو غزہ کے عوام کی مشکلات سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے، ایک اعلیٰ مقصد ہے۔”
وائٹ ہاؤس کی وضاحت
منگل کے روز ہی وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی کہ صدر ٹرمپ نے قطر میں اسرائیل کی کارروائی کی تائید نہیں کی۔ ترجمان کیرولائن لیویٹ نے کہا کہ اگرچہ حماس کا خاتمہ “قابلِ قدر مقصد” ہے، لیکن دوحہ پر حملہ امریکا اور اسرائیل دونوں کے مفاد میں نہیں۔ ان کے مطابق:
“صدر قطر کو ایک مضبوط اتحادی اور امریکا کا دوست ملک سمجھتے ہیں اور اس حملے کے مقام پر گہری بے چینی محسوس کرتے ہیں۔”
Comments are closed.