دوحہ: خلیجی ملک قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی بمباری کے باوجود ان کا ملک غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنی ثالثی کی کوششیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں لیکن امن قائم کرنے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اسرائیلی حملہ اور پس منظر
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب 9 ستمبر کو اسرائیلی ریاست نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حملے کیے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا ہدف حماس کی سیاسی قیادت تھی، جو اس وقت دوحہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ غزہ جنگ بندی کی تجویز پر ابتدائی مثبت ردعمل کے بعد باہمی مشاورت کے لیے جمع ہوئی تھی۔
امریکہ اور اسرائیل کا رویہ
قطر پر اسرائیلی حملوں کے بعد بھی واشنگٹن نے تل ابیب کو کسی قسم کی سرزنش کا نشانہ نہیں بنایا۔ امریکی خصوصی نمائندہ برائے لبنان ٹام بیرک نے کہا کہ اسرائیلی ریاست “سرحدوں کی پروا نہیں کرتی، وہ جہاں چاہے جا سکتی ہے اور کہیں بھی جا سکتی ہے۔”
ماہرین کے مطابق یہ صورت حال نہ صرف خطے کی سلامتی بلکہ خلیجی ممالک کے لیے بھی بڑا الارمنگ اشارہ ہے، کیونکہ اسرائیل نے براہِ راست خلیجی ریاست پر حملہ کر کے اپنی رسائی اور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔
قطر کی اہمیت
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ قطر علاقے میں امریکی افواج کا سب سے بڑا میزبان ملک ہے اور دوحہ میں امریکہ کا ایک بڑا فوجی اڈہ موجود ہے۔ ایسے میں اسرائیلی بمباری خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دے رہی ہے اور یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ خلیجی ممالک مستقبل میں بھی ایسے خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
قطر کا موقف
امیر قطر نے زور دے کر کہا کہ ان کا ملک غزہ میں انسانی جانوں کے تحفظ اور فوری جنگ بندی کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کو خطے کے امن کو داؤ پر لگانے سے روکے اور فلسطینی عوام کے حق میں اپنا کردار ادا کرے۔
Comments are closed.