جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان نے بدنیتی پر مبنی کارروائی کی۔ مجھے پاگل شخص قرار دیاگیا،ملک کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے۔ شہزاد اکبر کو جیل میں ہونا چاہیے لیکن وہ اہم عہدے پر ہیں۔ فروغ نسیم کو حلف کی خلاف ورزی پر برطرف کیا جانا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان کی وجہ سے ان کی اہلیہ اوربیٹی کا نام کیس میں آیا۔ فروغ نسیم نے مجھ اور میری اہلیہ پر الزامات عائد کیے۔ فروغ نسیم کو شاید اسلامی تعلیمات کا بھی علم نہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا فیصلہ نہ صرف عدالتی اختیارات سے تجاوز تھا، بلکہ آئین اورمتعدد قوانین کے خلاف ہے۔ خاتون چیئرپرسن ایف بی آر کو میرا کیس جاتے ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کا قتل عام کیا۔صدر نے میرے 3 خطوط کا جواب تک دینا گوارا نہیں کیا۔مجھے ریفرنس کی کاپی نہیں ملی۔لیکن میڈیا پر بینڈ باجا شروع ہوگیا۔
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے اور اہلخانہ کیخلاف فیفتھ جنریشن وار شروع کی گئی۔قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ آصف سعید کھوسہ نے میرا موقف سنے بغیر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ میرے دوست تھے۔ان کے فیصلے پردکھ ہوا۔وہ آج حکومت کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے ممبرہے، انہوں نے اپنے خلاف کسی الزام کی تردید نہیں کی۔ سمجھ نہیں آتا جمہوریت میں رہ رہے ہیں، یا ڈکٹیٹرشپ میں۔۔۔ کہنے کو ہم اسلامی جہموریہ پاکستان کے شہری ہیں لیکن دراصل منافقین کی قوم ہیں۔
فل کورٹ میں شامل ججز نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں جوغلطیاں ہیں ان کی نشاندہی کریں۔ اپنا رویہ وکیل والا رکھیں فریق نہ بنیں۔ جذباتی ہونے کےبجائے اپنے کیس پر توجہ دیں۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکومت میں موجود غیر منتخب افراد کو غلط نہ کہیں۔ سیاسی لوگوں کو حکومتی عہدے ملتے رہتے ہیں۔ججز کے بارے میں جس نے بھی بات کی اس کے کیخلاف ایکشن لیا۔
Comments are closed.