دل دہلا دینے والا واقعہ۔۔۔افسوسناک واقعہ۔۔۔ شرمناک واقعہ۔۔۔ نا قابل برداشت واقع۔۔۔ کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ ہو جو بڑے پیمانے پر لوگوں کے احساسات اور جذبات کو متاثر کرے تو اس کی شدت کے مطابق اسے نام دے دیا جاتا ہے۔
یوں اسی حساب سے مذمتیں اور نوٹسز لینے کا بھی سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ سخت الفاظ میں مذمت، شدید مذمت وغیرہ وغیرہ ۔ اس کے ساتھ ہی ٹی وی چینلز کی اسکرینیں سرخ ہو جاتی ہیں اور پھر بہت زیادہ ہوا تو دو سے تین دن بعد اس واقعے پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ یہ اقدام در حقیقت پیشگی انتظار ہے کسی نئے سانحے کا؟
سینئر صحافی اور مشہور یوٹویبر صدیق جان کے مطابق پہلے واقعہ کی دھول بھی نہیں بیٹھتی کہ ایسا ہی کوئی اور دلخراش واقعہ رونما ہوجاتا ہے اور پھر بیانات ،مذمتوں اور نوٹسز کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوجاتا ہے جہاں سے ٹوٹا تھا لیکن ٹھوس اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔
صدیق جان نے اپنے تجزیے میں اس کا ایک ٹھوس اور قابل عمل حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق خواتین اور بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے تدارک کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی طرح کا ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرناہوگا۔ ایسا پلان جسے پوری قوم کی حمایت حاصل ہو اورملزمان کیساتھ کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے۔
صدیق جان کاکہناتھا گزشتہ چند روز میں ہم نے دیکھا ہے بچوں اور خواتین کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہوا ہے اور ملک کے کئی حصوں سے ا یسی افسوسناک خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ ان واقعات کیساتھ اس بات پر بھی دوبارہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا اس طرح کے گھناونے جرائم میں ملوث افراد کو سر عام پھانسی دی جائے یانہیں ؟
ان کے نزدیک اگر نئے قوانین نہیں بھی بنتے تو موجودہ قوانین کے ہوتے ہوئے بھی بڑی حد تک بہتری لائی جا سکتی ہے ۔ملک کے اندر جو قوانین ہیں ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے ۔پولیس اصلاحات کو فوری منطقی انجام تک پہنچا کر جزاو سزا کا موثر نظام لایا جائے، تحقیقات کےلیے جدید طریقوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے ۔عدالتوں کو بھی اس حوالے سے متحرک کیا جائے اور ان سب کے ساتھ ہر سطح پر بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیاجائے ۔ قانون میں موجود سزاوں پر ہر صورت عمل کیا جائے۔
اپنے اسی وی لاگ میں صدیق جان نے ایک اور اہم نقطے کی نشاندہی کی کہ بعض صحافی خواتین کی جانب سے بھی حال ہی میں جنسی ہراسگی کے الزا مات سامنے آئے ہیں لیکن وہ ایسے واقعات پر خاموش کیوں ہیں ؟کیا ان کے الزامات ملک کے خلاف کسی سازش کا حصہ تو نہیں؟
Comments are closed.