ایران سے براہ راست جنگ کی صورت میں اسرائیل تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا، آرمی چیف ایال زامیر کا دوٹوک مؤقف

اسرائیل کے نجی نشریاتی ادارے “چینل 13” نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو کو آگاہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ اگر براہِ راست جنگ چھڑ گئی، تو اسرائیل تنہا اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق، وزیراعظم نیتن یاہو اور آرمی چیف ایال زامیر کے درمیان گزشتہ دنوں ہونے والی اہم ملاقاتوں میں فوجی قیادت نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ ایران کے خلاف کسی بھی بڑے فوجی اقدام میں اسرائیل امریکہ کی مدد کے بغیر نہیں جا سکتا۔

چینل 13 کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ زامیر نے نیتن یاہو کو باور کرایا کہ امریکہ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور مشاورت ناگزیر ہے، اور بغیر امریکی حمایت کے کسی بڑے اقدام کا آغاز “خطرناک اور ناقابلِ واپسی” ثابت ہو سکتا ہے۔

ملاقات میں شریک ایک ذریعے کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ جنرل تومر بار نے بھی اس مؤقف کی تائید کی، اور زور دیا کہ ایران پر ممکنہ حملے سے پہلے واشنگٹن سے مکمل ہم آہنگی ضروری ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی قیادت میں بھی اس حوالے سے اختلافات پائے جا رہے ہیں — کچھ افسران سمجھتے ہیں کہ محدود کارروائی کی گنجائش موجود ہے، جبکہ دیگر کا مؤقف ہے کہ کسی بھی فوجی اقدام کے لیے امریکی شرکت اور اس کی حد و دائرہ پہلے سے طے ہونا چاہیے۔

اسرائیلی وزیرِ ورثہ عمیحائی ایلیاہو نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو وہ “اچانک اور غیر متوقع” ہوگا۔ ان کا یہ تبصرہ ایک امریکی رپورٹ کے ردعمل میں تھا جس میں اسرائیلی حملے کے امکانات ظاہر کیے گئے تھے۔

دوسری جانب، ایرانی میڈیا نے بھی ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا، تو تہران کی جانب سے جوابی کارروائی “تیز اور غیر متوقع” ہوگی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، خطے میں بڑھتی کشیدگی، امریکہ-ایران جوہری مذاکرات کی معطلی، اور حالیہ حملوں نے بنیادی طور پر مشرقِ وسطیٰ کو ایک وسیع فوجی تصادم کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

Comments are closed.