سعودی وزارتِ خارجہ نے برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور پرتگال کی جانب سے ریاستِ فلسطین کو باضابطہ تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ یہ بیان نیویارک میں ہونے والی دو ریاستی حل کے اتحاد کی کانفرنس سے قبل جاری کیا گیا۔
سعودی عرب نے اسے “دوست ممالک کی جانب سے امن کی راہ میں سنجیدہ عزم” قرار دیا جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ مملکت نے اس امید کا اظہار کیا کہ مزید ممالک بھی فلسطین کو تسلیم کریں گے تاکہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر امن اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ سعودی مؤقف کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط بنانا خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔
فلسطینی قیادت کا ردعمل
فلسطینی وزیر خارجہ ڈاکٹر فارسن آغابکیان نے العربیہ سے گفتگو میں کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے یہ مسلسل اعلانات فلسطینی عوام کے حق اور سفارت کاری کی جیت ہیں۔ ان کے مطابق:
“یہ اعتراف ہماری ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے اور قابض اسرائیل کو ایک طاقتور پیغام دیتا ہے کہ دو ریاستی حل ہی امن کا راستہ ہے۔”
انہوں نے برطانیہ کے فیصلے کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیا کیونکہ یہ فلسطین کے قانونی موقف کو مزید تقویت دیتا ہے۔
ترجیحات اور انسانی پہلو
آغابکیان نے زور دیا کہ فلسطینی عوام کی اولین ترجیح غزہ میں بھوک اور جنگ کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ فلسطین ایک ریاست کے طور پر وجود میں آ رہا ہے اور عالمی برادری کو اس کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
بین الاقوامی تناظر
ماہرین کے مطابق مغربی ممالک کے فیصلوں اور سعودی عرب کے خیر مقدمی بیان کے بعد خطے میں دو ریاستی حل کے لیے نئی امیدیں جنم لے رہی ہیں۔ اس پیش رفت نے نہ صرف فلسطینی عوام کے حوصلے بلند کیے ہیں بلکہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ میں بھی اضافہ کیا ہے۔
Comments are closed.