اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات کرنیوالے افسران کے تبادلوں پرپابندی عائد کرتے ہوئے نیب اورایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتوں سے واپس لینے سے روک دیا۔ عدالت نے مقدمات کے ریکارڈ کی جانچ کے بعد سیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت سے 6 ماہ میں ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کی فہرست بھی طلب کرلی ۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ پوائنٹ اسکورنگ کےلیےاکٹھے نہیں ہوئے،کسی کی تنقید سے گھبرانے والے نہیں۔ ہم نے جس رول آف لا ءکے بارے میں لوگوں سے وعدہ کیا ہے،اس کی حفاظت کرینگے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے حکومتی عہدیداروں کی جانب سے مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ لاہورمیں ایک کیس کے دوران ایف آئی اے کے استغاثہ کو پیش نہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ہم آپ سے گارنٹی چاہتے ہیں کہ استغاثہ کا ادارہ مکمل آزاد ہونا چاہیے۔
ڈاکٹررضوان کا ذکرکرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایک قابل افسر تھے،انہیں کیوں ہٹایا گیا،یہ ساری ڈویلپمنٹس بظاہر کریمنل جسٹس سسٹم میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ای سی ایل سے چار ہزار سے زائد افراد کے نام نکالے گئے،نام نکالنے کا طریقہ کار کیا تھا،ہم نے جس رول آف لا ءکے بارے میں لوگوں سے وعدہ کیا ہے،اس کی حفاظت کرینگے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پوائنٹ اسکورنگ کےلیےاکٹھے نہیں ہوئے،کسی کی تنقید سے گھبرانے والے نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران تبدیل کیے گئے۔سیکریٹری داخلہ بتائیں استغاثہ کے کام میں مداخلت کیوں ہورہی ہے،ہائی پروفائل کیسز میں افسران کے تقرر وتبادلے کیوں کیے گئے،ہم نے پراسیکیوشن برانچ کے شفاف اور آزادانہ کام کو یقینی بنانا ہے۔جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لگتا ہے کہ تقرریاں اور تبادلے جان بوجھ کر کئے گئے۔
جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ آپ ای سی ایل سے نام براہ راست نہیں نکال سکتے، ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔عدالت نے سیکرٹری داخلہ،ڈی جی ایف ائی اے،نیب،چاروں صوبوں کے پراسیکیوٹرزجنرلز، ایف ائی اے اور نیب پراسیکیوشن برانچ کے سربراہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.