پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا نے پاکستان آرمی ایکٹ، پاکستان ایئر فورس ایکٹ، پاکستان نیوی ایکٹ اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ قومی سلامتی اور عدالتی فریم ورک سے متعلق ان اہم ترامیم پر اپوزیشن نے شدید اعتراضات اٹھائے، تاہم ایوان نے حکومت کے پیش کردہ بلوں کی منظوری دے دی۔
بلوں کی پیشی
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت ہوا۔
وفاقی وزراء اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور طارق فضل چوہدری نے آرمی، ایئر فورس، نیوی اور پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق ترمیمی بل ایوان میں پیش کیے۔
ایوان نے چاروں بلوں کو کثرت رائے سے منظور کیا۔
اپوزیشن کی مخالفت
بلوں کی منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے ارکان نے سخت مخالفت کی۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایوں مہمند اور جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے مطالبہ کیا کہ بلوں کو منظوری سے قبل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
تاہم چیئرمین سینیٹ نے ایوان سے رائے لی اور اکثریت نے بلوں کی منظوری کے حق میں ووٹ دے دیا۔
ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
-
ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد دفاعی قوانین میں تبدیلی ناگزیر تھی۔
-
آرمی ایکٹ، ایئر فورس ایکٹ اور نیوی ایکٹ میں ضروری ترامیم اسی آئینی ڈھانچے کی تکمیل کا حصہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دفاعی اداروں سے متعلق قوانین کو نئے آئینی تناظر کے مطابق اپ ڈیٹ کرنا ضروری تھا۔
اہمیت
27ویں آئینی ترمیم اور اس کے بعد بننے والی وفاقی آئینی عدالت نے ملکی قانون سازی کے نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔
دفاعی قوانین میں ترامیم کو اس نئے عدالتی و آئینی فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے اس عمل کو عجلت کہا گیا، جبکہ حکومتی موقف کے مطابق یہ ترامیم ریاستی اداروں کی قانونی وضاحت کے لیے ضروری تھیں۔
Comments are closed.