مسجد اقصی پر حملے کیخلاف امت مسلمہ کو یکساں موقف اپنانا چاہیے، شاہ محمود قریشی

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قبلہ اول پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد اقصی حملے پر امت مسلمہ کو متحد ہو کر یکساں موقف اپنانا چاہے، پاکستان کسی ملک کی افواج کو اپنی سرزمین استعمال کی اجازت دےگا نہ ہی تنصیبات دی جائیں گے، بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے بامقصد بات چیت کیلئے بھارت کو کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی نے قبلہ اول مسجد اقصٰی میں بربریت پر گہری تشویش ہے، وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب میں سیکرٹری جنرل او آئی سی سے ملاقات میں پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا، ترک وزیرخارجہ سعودی حکام کے ساتھ معاملہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے پر بات کریں گے۔ نہتے لوگوں کو مسجد اقصٰی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گرنیڈ اور ربڑ کی گولیوں سے حملہ کیا گیا، پاکستان اس بربریت کی شدید مذمت کرتا ہے، نہتے شہریوں پر حملے کی کون سا قانون اجازت دیتا ہے؟ وزیراعظم کو اعتماد میں لینے کے بعد جرمنی، ایران، اردن سمیت کئی ممالک کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد ہماری کاوشوں سے تین دفعہ مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا گیا، 35 اے کے خاتمے کے ذریعے ہندوستان آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔  اس لئے کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل رہے ہیں جس پر شدید تشویش ہے، کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے پھر یہ ہندوستان کیلئے اندرونی مسئلہ کیسے ہو سکتا ہے؟ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ فی الحال ہندوستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو رہیں، لیکن اگر بھارت مذاکرات چاہتاہے تو انہیں کشمیریوں پرجاری مظالم کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا، اگر بھارت کشمیریوں کا تشخص بحال کر دے تو یہ مناسب ماحول کے قیام کی جانب قدم ہو گا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ افغانستان سے متعلق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، کابل میں سکول پر حملہ انتہائی قابل مذمت ہے، دکھ کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم افغانوں کے باہمی مذاکرات سے افعان مسئلے کے سیاسی حل کے خواہشمند ہیں، غیرملکی فوجوں کا انخلا شروع ہو چکا ہے، افغانستان میں قیام امن کی ذمہ داری افغان قیادت پر ہے، افغانستان میں قیام امن سے پاکستان اور پورا خطہ مستفید ہوگا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کیلئے پرعزم ہے، پاکستان کسی فریق کے ساتھ نہیں افغانستان کی ترقی کے ساتھ ہے، افعان حکومت اور طالبان کے مابین جنگ بندی معاہدہ خوش آئند ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بیس منتقل نہیں ہو رہے، پاکستان نے ہمیشہ طالبان کو بھی مذاکرات کی راہ اپنانے کی ترغیب دی ہے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کی بات کی ہے، آپ نے اس کا نتیجہ دوحہ میں امن معاہدے کی صورت میں دیکھا، اگر عید کے بعد استنبول کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے تو چیزیں مزید بہتری کی جانب جائیں گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب غیر معمولی نوعیت کا تھا، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خود وزیراعظم عمران خان کو خوش آمدید کہنے کیلئے ائیرپورٹ تشریف لائے، پاکستان اورسعودی عرب کے بہترین تعلقات کو اس دورے نے نئی جہت دی، دونوں ممالک کے مابین ایک ادارہ جاتی میکنزم تشکیل پایا ہے جس کے خدوخال ہم نے طے کر لیے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ بیروزگاری ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، سعودی ولی عہد کے وژن 2030 کے مطابق سعودی عرب کو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہو گی، آئندہ چند برسوں میں انہیں ایک کروڑ افرادی قوت درکار ہو گی جس میں سے وہ پاکستان سے خاصی تعداد لینے کے خواہشمند ہیں، انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانےوالے معاہدوں سے متعلق بھی بتایا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سعودی قیادت کے ساتھ کلوزگروپ ملاقات میں وزیراعظم عمران خان، میں اور آرمی چیف تھے، جس میں کشمیر کے معاملے پر کھل کر اپنا موقف پیش کیا، صورت حال کو خراب ہندوستان نے کیا ہے، بھارت ان اقدامات پر نظرثانی کرتا ہے تو ہم بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ سیاست سے بالاتر ہے، پاکستان کا موقف انتہائی ٹھوس اور واضح ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ہے، بھارت کا آرٹیکل 370 کشمیریوں کو ایک اسپیشل سٹیٹس دیا گیا جب اسے ختم کیا گیا تو تمام کشمیریوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا اور ہم نے بھی کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو سعودی عرب میں سفارتخانے کے حوالے سے کچھ شکایات موصول ہوئیں جس پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، اس معاملے کو میڈیا میں اچھالے جانے پر تشویش ہے، کیونکہ اس کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور پاکستانی سفراء کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، سفارتخانوں میں قونصلر سروسز سے وابستہ کچھ افسران ایسے بھی تعینات ہوتے ہیں جو براہ راست وزارت خارجہ کے ماتحت نہیں ہوتے، ہم اس حوالے سے جامع تحقیقات بھی کر رہے ہیں، کارکردگی کی بہتری کیلئے جامع تجاویز بھی مرتب کر رہے ہیں جنہیں ہم وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں جلد پیش کریں گے۔

وزیر خارجہ نے بتایا کہ ان کی سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود سے ملاقات کافی سودمند رہی، عید الفطر کے بعد سعودی حکام کا ایک وفد پاکستان آئے گا اور ہم باہمی معاملات کو آگے بڑھائیں گے، سعودی وزیر خارجہ تشریف لائیں گے اور ہم سعودی ولی عہد کے اگلے دورہ پاکستان کے امور طے کریں گے۔

Comments are closed.