چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کئی غیر حل شدہ تنازعات کسی بھی وقت شدت اختیار کر کے خطے کو نیوکلیئر تصادم کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت جیسے دو ایٹمی ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت دیگر حل طلب مسائل کا موجود ہونا ایک سنجیدہ خطرہ ہے، اور ان کے اثرات علاقائی سے بڑھ کر عالمی سلامتی تک پھیل سکتے ہیں۔
اپنے خطاب میں انہوں نے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے آٹھ نکات پیش کیے اور کہا کہ ادارہ جاتی پروٹوکولز، مؤثر ہاٹ لائنز، اور مشترکہ کرائسس مینجمنٹ مشقوں کی فوری ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے مؤثر انداز میں نمٹا جا سکے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا نے خطے میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک کشیدگی، غیر متوازن بحران مینجمنٹ، اور اعتماد کے فقدان پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک فریقین کو برابری کی بنیاد پر شامل نہیں کیا جاتا، تب تک کوئی بھی سکیورٹی فریم ورک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مصنوعی ذہانت، سائبر حملوں اور جدید جنگی ٹیکنالوجیز کو بھی نئے چیلنجز قرار دیا اور کہا کہ ان عناصر کو کرائسس مینجمنٹ میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر پاکستان کے پانی کو روکا یا موڑا گیا تو یہ جنگی اقدام سمجھا جائے گا۔
جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ پاکستان باعزت، برابری اور احترام پر مبنی مستقل امن چاہتا ہے، اور مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہی خطے میں پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔
Comments are closed.