سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات کی انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی (ATC) سے منتقلی کے خلاف دائر اپیلوں کو نمٹا دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پر عائد کیا گیا 22 لاکھ روپے کا جرمانہ برقرار رہے گا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کا کیریئر پر اثر نہیں ہوگا
سماعت کے دوران عدالت نے واضح کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا پراسیکیوٹر جنرل پنجاب یا اے ٹی سی جج کے کیریئر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے اور ہائی کورٹ کے اختیارات میں مداخلت مناسب نہیں۔
پنجاب حکومت کے مؤقف اور تبصرے
پنجاب حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ اے ٹی سی جج کا تبادلہ پہلے ہی ہو چکا ہے اور اصل مسئلہ ہائی کورٹ کے سخت ریمارکس اور مالی جرمانے کا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ جرمانہ ادا کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، اور یہ ہائی کورٹ کا انتظامی اختیار ہے جسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹسز کے اہم ریمارکس
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو پورے صوبے کی عدالتی کارروائی کا نظم و نسق سنبھالنا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکومت کو پیغام دینے کے لیے جج کے خلاف ریفرنس کا معاملہ اٹھایا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بھی کہا کہ ہائی کورٹ نے حکومت کو ایک واضح پیغام دیا، جس سے ایڈمنسٹریٹو جج نے بھی اتفاق کیا۔ سپریم کورٹ نے زور دیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے انتظامی اختیارات کا احترام ضروری ہے۔
پس منظر: 9 مئی کے واقعات
یہ کیس 9 مئی 2023 کے ان پرتشدد مظاہروں سے متعلق ہے جو ایک سیاسی رہنما کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑے تھے۔ ان مظاہروں کے دوران کئی سرکاری اور عسکری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان مقدمات کی شفاف اور غیر جانبدارانہ سماعت کے لیے ان کی منتقلی کی درخواست دی گئی تھی۔
نتیجہ: عدلیہ کا ادارہ جاتی استحکام برقرار
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عدلیہ کے اندرونی نظم و ضبط اور اعلیٰ عدالتوں کے انتظامی فیصلوں کے احترام کی ایک مثال ہے۔ عدالت نے واضح کر دیا کہ ذاتی کیریئر کو نشانہ بنانا مقصد نہیں بلکہ عدالتی خودمختاری کا تحفظ اصل مدعا ہے۔
Comments are closed.