سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ پر انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لاجر بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیوں پر سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بنچ میں شامل تھے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے بتایا کہ 20 افراد ایسے ہے جنکی عید سے قبل رہائی ہو سکتی ہے، بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دیکر رہا کیا جائے گا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دیدی جائے گی، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں، جن کی رہائی کیلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا ، دوسرا اسکی توثیق ہوگی، تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ خصوصی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے، اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہو گی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک خصوصی عدالتوں سے فیصلے نہیں آجاتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دے دی جائے گی۔
کمرہ عدالت میں موجود بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہو سکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی، فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہو گی۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے میں ہو گی۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیوں پر سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک کیلئے ملتوی کر دی۔
Comments are closed.