سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی سے منظور

اسلام آباد : قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دے دی۔

قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا قانون سازی آئین پاکستان کے عین مطابق ہے، اس قانون نے سپریم کورٹ کی پاور میں نہ کمی کی نہ اضافہ کیا، سپریم کورٹ میں مداخلت تب ہوتی ہے جب ہم کسی اجنبی کو اختیار میں شامل کرتے ہیں۔ اس قانون سازی سے ون مین شو کا اختتام ہو گا، پارلیمان کو وہ قانون سازی کرنی ہے جو عوام کے مفاد میں ہے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قائمہ کمیٹی کو سونپا گیا تھا، کمیٹی نے بل میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں۔

ایوان میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ وزیر قانون نے پیش کی جبکہ کمیٹی کی رپورٹ چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے پیش کی، بعد ازاں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا جس کے بعد بل پر بحث آغاز ہوا۔ بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مولاناعبدالاکبر چترالی نے کہا کہ قانون سازی ایوان کا حق ہے، قانون سازی سےکوئی بھی ادارہ یا عدالت ایوان کو روک نہیں سکتی لیکن بل پیش کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں سب کو دیکھا جائے، ہم اپنے اداروں کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ طور پر عدالتی اصلاحات بل لائی ہیں، اپوزیشن نے عدالتی اصلاحات بل پر تفصیلی غور کیا ہے، عدالتی اصلاحات بل سے عام آدمی کو انصاف ملے گا، ون مین شو کا خاتمہ ہو گا اور عدلیہ مضبوط ہوگی، عدالتی اصلاحات بل کے پاس ہونے پر ایڈوانس مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پی ٹی آئی رکن صالح محمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی آزاد عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، عدلیہ میں اصلاحات کے حق میں ہے لیکن ڈاکہ ڈالنے کے حق میں نہیں۔ بل عجلت میں پاس کرنے کے بجائے بحث کے لیے ٹائم دینا چاہیے تھا، انہوں نے کہا کہ اس بل میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہے، بل کی آڑ میں عدلیہ پر حملہ کیا جا رہا ہے، اس لیے وکلا برادری سے درخواست ہے کہ وہ عدلیہ کیساتھ کھڑی ہو، آئین عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن عدالتی اصلاحات ذاتی خواہشات پر مبنی ہے۔ منحرف رکن پی ٹی آئی احمد حسین دیہڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں بل پیش کرنے والوں اور پاس کرنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، وکیل ہونے کی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے۔ دیر سے ملنے والا انصاف انصاف نہیں ہوتا، انصاف نظر بھی آنا چاہیے، اگر یہ قانون پاس ہوجائے تو میں سیلوٹ کرتا ہوں۔منحرف رکن پی ٹی آئی جویریہ ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم قصور وار ہیں اور ہمیں درست فیصلے کرنے چاہئیں تھے، یہ بل کئی سال پہلے آجانا چاہیے تھا اور اس میں وکلا کے تحفظ کے حوالے سے اچھی شقیں شامل ہیں، اس بل کی ٹائمنگ درست نہیں لیکن اس کی سپورٹ کرتی ہیں۔

وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بل فرد واحد کے اختیارات کو سینئر ججوں میں تقسیم کرنے پر ہے، عدالتوں کے اندر ججوں کی جو اختلافی آواز آرہی ہے وہ سب کے سامنے ہے اور یہ پارلیمان کا حق ہے جو وہ استعمال کر رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کیس تاخیر کا شکار کرکے ان کا عدالتی قتل کیا گیا، ضیاء الحق نے عدلیہ کے سارے اختیارات ایک فرد واحد کو دیئے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا کیا اس قانون پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی؟ توہین عدالت کے قانون میں نظر ثانی ہونی چاہیے، بینچ کی طرف سے نواز شریف کے لیے سسلین مافیا کہا گیا، عدلیہ بحالی تحریک پر حکومت اور اپوزیشن میں لاہور میں میرے گھر مشاورت ہوئی، آج سے 15 سال پہلے ایسی قانون سازی کی کوشش کی، بینچ میں باہر سے کوئی اور شامل نہیں ہوگا عدلیہ سے ہی جج ہوں گے، پارلیمان اپنا آئینی حق استعمال کر رہا ہے، ہم تجاوز نہیں کر رہے آئین اجازت دیتا ہے، اس ایوان کے پاس مینڈیٹ ہے، بھٹو نے 50 سال پہلے کہا طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور آج بھی کہتا ہوں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ چند روز پہلے مشترکہ اجلاس میں ہم نے پھر وہ ماحول دیکھا جو سال سے نہیں دیکھا تھا، پھر اس ایوان میں گالم گلوچ ہوئی، بدتمیزی کا وہ ماحول بنا جو چار سال چلتا رہا اس لیے یہ ترمیم بہت مناسب ہے لیکن تین کے بجائے سات جج ہونے چاہئیں کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے میں تین ججز کے فیصلوں سے ہی مشکلات ہوئیں، پاکستان کے عوام کے پیسے جو لوٹتے ہیں انہیں حکم امتناع مل جاتا ہے، بطور چیئرمین پی اے سی جن کے خلاف بھی کارروائی کی کوشش کی انہیں سٹے آرڈر مل گیا، یہاں دو مختلف پاکستان نظر آتے ہیں، غریب کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ۔ وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ قانون سازی ہمارا حق ہے کسی جنرل یا جج کا نہیں، جو اپنی حدود پار کرتے انکو روکنے کے لیے قانون سازی کا حق رکھتے ہیں، رات کی تاریکیوں میں عروج بھی ہوتا ہے، نبی کریم کو رات کی تاریکی میں میراج ہوئی، شب قدر کی بابرکت رات بھی رمضان المبارک میں ہے اور ہمارا سیاسی عروج کا زمانہ رمضان المبارک میں ہے۔ پاکستان کے عوام نے یہ امانت ہمیں سونپی ہے۔

Comments are closed.