اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کسی پر گٹھ جوڑ ثابت ہو جائے تو اس کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
دوران سماعت اہم نکات
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا، کیا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟ اس پر ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق عملاً دستیاب نہیں تھے اور سویلینز کے معاملے میں کرمنل دفعات پر ٹرائل عام عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھیں جو مسلح افواج سے متعلق تھیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہاں “تعلق” سے کیا مراد ہے؟ اس پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آیا آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں اور یہ کہ کسی قانون کے تحت ایسا کرنا متعلقہ ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جاری ہے، اور قانونی ماہرین کی جانب سے اس پر مزید دلائل دیے جانے کی توقع ہے۔
Comments are closed.