سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال ناگزیر قرار

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم فیصلے میں نظام انصاف میں جدت لانے اور انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے استعمال پر زور دیا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دیا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

عدالتی فیصلہ اور پس منظر

یہ فیصلہ 18 جولائی کی عدالتی کارروائی پر مبنی ہے، جس کا چار صفحات پر مشتمل تحریری متن 28 دن بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔ مقدمہ غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی سے متعلق اپیل پر تھا، جسے عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا۔

انصاف میں تاخیر کے نقصانات

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار کے مترادف ہے بلکہ اکثر اوقات یہ انصاف کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ تاخیر عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے، قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے اور بالخصوص کمزور و پسماندہ طبقات کو نقصان پہنچاتی ہے، جو طویل عدالتی کارروائی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔

عدالت نے مزید کہا کہ انصاف میں تاخیر سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو غیر مؤثر بناتی ہے اور عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں تقریباً 55 ہزار 9 سو 41 کیسز صرف سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

مصنوعی ذہانت اور جدید نظام کی ضرورت

سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ عدلیہ کو فوری طور پر ایک جدید، جوابدہ اور اسمارٹ کیس مینجمنٹ نظام کی طرف منتقل ہونا ہو گا، تاکہ زیر التوا مقدمات میں کمی لائی جا سکے اور انصاف کی بروقت فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے عدالت نے مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے۔

ماہرین کا ردعمل

قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کا یہ قدم پاکستان کے عدالتی نظام میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا گیا تو نہ صرف عدالتی نظام کی کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بھی بحال ہو گا۔

Comments are closed.