فلپائن کے وسطی علاقے میں منگل کی رات 6.9 شدت کے زلزلے نے تباہی مچادی، جس کے نتیجے میں کم از کم 69 افراد جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق زلزلے کی گہرائی تقریباً 10 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی۔ اس کے بعد بھی کئی آفٹر شاکس محسوس کیے گئے، جن میں سب سے شدید 6 شدت کا تھا۔ تاہم حکام نے کسی قسم کی سونامی وارننگ جاری نہیں کی۔
سیبو شدید متاثر
شہری دفاع کے اہلکار رافی الیخاندرو نے بتایا کہ زلزلے کا مرکز صوبہ سیبو کے شمالی شہر بوگو کے قریب تھا۔ اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں جبکہ صوبائی ڈیزاسٹر آفس کے مطابق 69 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے اور یہ اعداد و شمار مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ترجمان جین اباپو نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد سرکاری ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہے اور 150 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حکومتی اقدامات اور امداد
صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر نے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا اور متاثرین کو فوری امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے وزرا خود ریلیف آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بجلی اور پانی کی فراہمی بحال کرنے کے لیے اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر متحرک کردیا گیا ہے۔
سیاحت اور مقامی حالات
سیبو، جس کی آبادی تقریباً 34 لاکھ ہے اور جو ملک کے مشہور سیاحتی مقامات میں شمار ہوتا ہے، زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا۔ تاہم خوش قسمتی سے ملک کا دوسرا بڑا اور مصروف ترین ہوائی اڈہ مکتان-سیبو انٹرنیشنل ایئرپورٹ معمول کے مطابق فعال رہا۔
شدید متاثرہ علاقے
قصبہ سان ریمیگیو بدترین متاثرہ مقامات میں شامل ہے اور اسے ہنگامی صورتحال میں رکھا گیا ہے۔ ڈپٹی میئر الفی رینیس نے کھانے پینے کے سامان، پانی اور بھاری مشینری کی فراہمی کی اپیل کی ہے تاکہ امدادی کارروائیوں میں سہولت پیدا کی جا سکے۔ مقامی میڈیا نے ویڈیوز بھی جاری کی ہیں جن میں لوگ گھروں سے باہر بھاگتے اور تاریخی عمارتیں زمین بوس ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ متاثرہ عمارتوں میں ایک سو سال پرانا چرچ بھی شامل ہے۔ سان ریمیگیو کے اسپورٹس کمپلیکس میں کھیل کے دوران چھت گرنے سے کئی افراد جاں بحق ہوئے۔
خطے کا پس منظر
فلپائن بحرالکاہل کے “رِنگ آف فائر” پر واقع ہے جہاں آتش فشانی سرگرمیاں اور زلزلے عام ہیں۔ رواں سال جنوری میں دو بڑے زلزلے آئے تھے لیکن ان میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، تاہم 2023 میں آنے والے 6.7 شدت کے زلزلے میں 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
Comments are closed.