اسلام آباد میں اندوہناک قتل کی واردات میں ابھرتی ہوئی ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو ان کے گھر میں گھس کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس نے واقعے میں ملوث ملزم عمر حیات کو صرف 20 گھنٹوں میں فیصل آباد سے گرفتار کر لیا۔ مقتولہ کا جسد خاکی چترال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی تدفین کی جائے گی۔
پولیس کے مطابق 22 سالہ ملزم عمر حیات، جو خود بھی ٹک ٹاکر ہے، مقتولہ کے ساتھ رابطے میں تھا۔ پیر کی شام تقریباً 5 بجے وہ ثنا یوسف کے گھر داخل ہوا اور سینے میں دو گولیاں مار کر فرار ہو گیا۔ زخمی حالت میں انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکیں۔
مقتولہ کی والدہ کی مدعیت میں تھانہ سنبل، اسلام آباد میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس نے مقتولہ اور ملزم کے موبائل فونز تحویل میں لے کر فرانزک تجزیے کے لیے بھجوا دیے ہیں، جبکہ موبائل سی ڈی آر اور اسلحے کا فرانزک بھی کروایا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اسلام آباد پولیس کی کارکردگی کو سراہا اور ملزم کی بروقت گرفتاری پر شاباش دی۔
قومی کمیشن برائے وقارِ نسواں کی چیئرپرسن ام لیلیٰ نے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ نوجوان ٹک ٹاکر کو گھر میں گھس کر قتل کرنا ناقابل قبول اور افسوسناک ہے۔
آئی جی اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ ایک “اندھا قتل” تھا، جس میں قاتل نے مقتولہ کا موبائل فون غائب کر کے شواہد مٹانے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے جدید ٹیکنالوجی، 113 کیمروں، اور ڈیجیٹل سرویلنس کے ذریعے قاتل کا سراغ لگا لیا۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد، فیصل آباد اور جڑانوالہ میں مجموعی طور پر 8 چھاپے مارے گئے، اور سات مختلف ٹیموں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، 37 افراد سے تفتیش، اور سیلولر ڈیٹا کی مدد سے تحقیقات کیں۔ قاتل کو ٹریس کرنے کے لیے سیف سٹی کیمروں کے ساتھ ساتھ نجی کیمروں سے بھی مدد لی گئی۔
یہ واقعہ سوشل میڈیا صارفین اور انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے، اور خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین و اقدامات پر ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
Comments are closed.